نعمان بن بشیر ؓ کی معزولی اور ابن ِ زیاد کا تقرر

کوفہ کی صور تحال کے بارے میں اطلاع کے حوالے سے یزید نے اپنے ایک خاندانی غلام سرجون کو بلایا۔سرجون امیر معاویہ کا خاص اعتماد والا غلام اور خاندان کا راز دار تھا ۔یزید نے اس کی گود میں پرورش پائی تھی۔یزید نے اس کو تمام حالات بتائے اور پوچھا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ سرجون نے کہا کہ امیر معاویہ زندہ ہوتے تو کیا آ پ ان کا مشورہ قبول کر لیتے؟ یزید نے کہا کہ ہاں ! سرجون نے کہا کہ تو میرا یہ مشورہ بھی قبول کر لیں کہ کوفہ کی امارت کے لیے عبید اللہ بن زیاد سے بہتر کوئی آدمی نہیں ۔اس لیے کوفہ کی امارت اس کے سپرد کر دیں۔
(البدایہ و النہایہ
ابن زیادبصرہ کا گورنر تھا۔ کوفہ میں شیعان ِ علی ؑو حسین ؓ کا زورتوڑنے کے لیے یزید نے اسے کوفہ کا بھی گورنر مقرر کروایا اور اسے حکم نامہ جاری کیا کہ کوفہ پہنچ کر مسلم بن عقیل ؓ کو تلاش کرو۔ اور جب وہ تمہارے ہاتھ آ جائیں تو انہیں قتل کر دو یا جلا وطن کر دو۔
(البدایہ و النہایہ

جس دن بصرہ میں ابن زیاد کو یزید کا حکم نامہ ملا اسی دن بصرہ میں حضرت امام ِ حسین ؓ کا قاصد بھی اہل بصرہ کے نام آپ ؓ کا ایک خط لایا۔کیونکہ اہل بصرہ بھی آ پ ؓ کی طرف مائل تھے اس لیے آپ ؓ نے اس خط میں اہلِ بصرہ کو لکھا تھا کہ:
میں نے اپنے قاصد کو یہ مکتوب دے کر بھیجا ہے میں تمہیں اللہ کی کتاب اور اس کے نبی ﷺ کی طرف دعوت دیتا ہوں ۔اس لیے کہ سنت مٹا دی گئی ہے اور بدعت زندہ کر دی گئی ہے۔اگر تم لوگ میری سنو گے اور میرے علم کی اطاعت کرو گے تو میں تمہیں راہ ِ ہدایت پر چلاﺅں گا
بصرہ کے سرداروں میں جس شخص نے امام حسین ؓ کا خط پڑھا اس نے اسے پوشیدہ رکھا۔ مگر منذر بن الجارود کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ قاصد عبید اللہ بن زیاد کا کوئی جاسوس نہ ہو اور اس نے اشرافِ بصرہ کے پاس بھیجا ہو ۔جس صبح کی رات ابن زیادنے کوفہ کے لیے روانہ ہونا تھا ، اس رات منظر بن الجارود قاصد کو لے کر ابن زیاد کے پاس آیا اور مکتوب اسے پڑھایا۔ابن زیاد نے اسی وقت امام ِ حسین ؓ کے قاصد کو قتل کروا دیا ۔اوربصرہ میں لوگوں کے سامنے سخت تہدیدآمیز تقریر کی اور کہا :
خدا کی قسم ! مجھے مصیبت، دشواری یا دشمن کے اسلحہ سے ڈرایا نہیں جا سکتا ۔جو مجھ سے دشمنی رکھے میں اس کے لیے عذاب ہوں ۔ اور جو مجھ سے جنگ کرے اس کے لیے میں جنگ کی آگ ہوں ۔امیر المومنین (یزید) نے مجھے کوفہ کی ولایت سونپی ہے۔میں کل وہاں جانے والا ہوں اور اپنے پیچھے عثمان بن زیادہ بن ابو سفیان کو تم پر نائب بنائے چھوڑے جا رہا ہوں ۔تم لوگ اختلافات اور بغاوت سے اجتناب کرو ۔ورنہ قسم اس ذات کی کہ جس کے سوا اور کوئی خدا نہیں، اگر میرے پاس تم میں سے کسی کی مخالفت کی خبر پہنچی تو میں اس کو اور اس کے حامیوں اوردوستوں کو بھی نہیںچھوڑوں گا ۔میں بعید( دور) کے بدلے قریب کو پکڑوں گا ۔یعنی روپوش مجرموں کے وارثوں اور حامیوں کو پکڑوں گا جو موجود ہوں گے۔یہاں تک کہ معاملہ سلجھ جائے اورتم میں کوئی مخالفت کرنے والا اور پھوٹ ڈالنے والا باقی نہ رہے۔یاد رکھو ! میں اپنے باپ کے مشابہ ہوں ، اس باپ کے جس نے کنکر پتھر روند ڈالے تھے۔
(الطبری