ابن ِ زیاد کا کوفے میں داخلہ

عبیداﷲ بن زیاد، بصرہ سے اپنے اہلِ خانہ اور
۰۰۵
سواروں کے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ ہوا۔ان میں سے کچھ راستے میں ہی ٹھہر گئے

مگر
اس نے کچھ پرواہ نہ کی اور برابر چلتا رہا۔قادسیہ کے مقام پر پہنچ کر اس نے سترہ افراد کو اپنے ساتھ لیا اور باقی کو وہیں چھوڑااور دھوکہ دینے کے لیے حجازی لباس پہن کر اونٹ پر سوار ہوا اور چند آدمیوں کو ساتھ لے کر حجازی راستے سے مغرب اور عشاءکے درمیان کوفہ میں داخل ہوا۔رات کے اندھیرے میں مکر و فریب کے ساتھ پہنچنے سے ا س کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت کوفیوں میں یزید کے خلاف اک لہر دوڑی ہوئی ہے۔ لہٰذا ایسے طور پر داخل ہونا چاہیے کہ وہ ابنِ زیاد کوپہچان نہ سکیںاور سمجھیں کہ حضرت اما م ؓحسین تشریف لے آئے ہیںتاکہ امن و امانیت کے ساتھ وہ کوفہ میں داخل ہو سکے۔اور ایسا ہی ہوا۔اہلِ کوفہ جن کو امامِ عالی مقام ؓ کی آمد کا انتظار تھا ۔حجازی رستے سے حجازی ساز و سامان کے ساتھ آتا دیکھ کر رات کی تاریکی میں ہر شخص نے یہی سمجھا کہ حضرت امامِ حسین ؑ تشریف لا رہے ہیں۔
سب لوگوں نے نعرے بلند کیے۔ابنِ زیاد بد نہاد کسی کو کچھ جواب نہ دیتا تھا بلکہ آوازوں کو سنتا اور سب کو بغور دیکھتا ہوا چلا جا رہا تھا۔شور سن کر اور بھی لوگ گھروں سے نکل آئے ۔ اور ہر شخص فرزندِ رسول ﷺ سمجھ کر آگے بڑھنے لگا۔جب مجمع بہت زیادہ ہو گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ راہ چلنے میں رکاوٹ پیدا ہونے لگی تو اس وقت مسلم بن عمرو باہلی جو ابنِ زیاد کے ساتھ تھا اس نے پکار کر کہا کہ راستہ چھوڑو یہ امیر عبیداللہ بن زیاد ہیں۔ان الفاظ کو سن کر لوگوں کو بہت رنج ہوا۔افسوس کرتے ہوئے سب اپنے اپنے گھروں کو واپس ہو گئے اور صرف دس بیس آدمیوں کے ساتھ ابنِ زیا د گورنر ہاوس میں داخل ہوا۔(طبری
گورنر ہاﺅس میں داخل ہونے کے بعد ابنِ زیاد نے عا م اعلان کرنے کا حکم دیا۔منادی کی گئی اور لوگ جمع ہو گئے۔ابنِ زیاد گورنر ہاﺅس سے نکل کر لوگوں کے پاس آیا اور اللہ کی حمدو ثنا ءکے بعدخطاب کیا۔
امیرالمومنین(یزید) نے مجھے تمھارے امور ، تمھاری حدود اور تمھارے اموال پر حاکم بنا کر بھیجا ہے۔ انھوں نے حکم دیا ہے کہ میں تمھارے مظلوموں کے ساتھ انصاف کروں، حاجت مندوں کوعطا کروں۔ مطیع و فرمانبردار پر احسان کروںاور تم میں سے مشکوک اور نافرمان لوگوں پر سختی کروں ۔میں تم پراس کے احکام نافذکروں گا اور ان احکام کی پیروی کراﺅں گا۔
(البدایہ و النہایہ
۔ ابن اثیر
ٍ اس تقریر کے بعد ابنِ زیاد نے کوفہ کے سرکردہ لوگوں کو گرفتا ر کر لیا اور ان سب سے تحریری ضمانت مانگی کہ وہ اور ان کے قبیلے کے افراد کسی مخالف کو اپنے ہاں پناہ نہیں دیں گے اور نہ کسی قسم کی مخالفانہ سرگرمیوں میں حصہ لیں گے ۔اور اگر کسی نے حکومت کے کسی مخالف کو پناہ دے رکھی ہے تو وہ اس کو پیش کرے گا۔ اور جو اپنی تحریر کی پابندی کرے گا وہ بری ہو جائے گا۔ جو ایسا نہیں کر پائے گا اس کا مال اور جان دونوں حلال ہو جائیں گے ۔اس کو قتل کر کے اسی کے دروازے پر لٹکا دوں گا اور اس کے تمام لواحقین بھی محفوظ نہیں رہیں گے ۔ابنِ زیاد کی آمد اور ڈرانے دھمکانے سے اہل ِ کوفہ خوف زدہ ہو گئے اور ان کے خیالات میں تبدیلی آنے لگی۔ ان حالات کے پیش ِ نظر حضرت مسلم بن عقیلؓ نے مختار بن عبیدہ کے ہاں رہنا مناسب نہ سمجھاکیونکہ کوفہ میں مشہور ہوچکا تھا کی آپؓ یہاں قیام پذیر ہیں۔ آپؓ رات کی تاریکی میں وہاں سے نکل کر ہانی بن عروہ کے ہاں چلے آئے جو قبیلہ مز حج کے سرداراور محبِ اہل ِ بیت تھے۔ وہ کہنے لگے کہ آپ ؓیہاں نہ آتے تو اچھا تھا۔ آپؓ نے فرمایا کہ میں خاندان ِ رسالت کا ایک غریب الوطن مسافر ہوں مجھے پناہ دیں۔ ہانی نے کہا کہ اگر آپؓ میرے مکان میں داخل نہ ہو چکے ہوتے تو میں یہ کہتا کے آپؓ یہاں سے چلے جائیں ۔لیکن اب میری غیرت کے خلاف ہے کہ میں آپؓ کو گھر سے نکال دوں۔ہانی نے مکان کے عورتوں والے حصے کے محفوظ کمرے میں آپ کو چھپا دیا۔ اور سوائے محدود و مخصوص لوگوں کے دوسروں کو اس راز سے مطلع نہ کیا ۔ (ابن اثیر