اُمِ ہانی ؓکی گرفتاری

ہانی بن عروہ ؓکوفہ میں ایک مقتدر شخصیت تھے ۔ ابن ِ زیاد کے ساتھ انؓ کے پہلے سے تعلقات تھے ۔ حضرت مسلم بن عقیل ؓ کے آنے سے پہلے انؓ کاابن ِ زیادکے پاس آنا جانا رہتا تھا ۔ حضرت مسلم بن عقیل ؓ کے اپنے گھر آنے کے بعد انہوں نے بیماری کا بہانہ کر کے ابن ِ زیاد سے میل ملاپ ترک کر دیا۔ ابن ِ زیاد چونکہ تمام حالات سے باخبر ہو چکا تھا تو ایک دن اس نے ہانیؓکا ذکر کرتے ہوئے پوچھا کہ دوسرے امرا کے ہمراہ ہانیؓ ہمیں ملنے کیوں نہیں آتا؟لوگوں نے بتایا کہ وہ بیمار ہے۔ ابن ِ زیاد نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنے گھرکے دروازے پر بیٹھا رہتا ہے۔ اس کے بعد چند امرا ہانیؓ کے پاس گئے اور کہا کہ ابن ِ زیاد کو آپ ؓسے کچھ بدگمانی ہو گئی ہے ۔اس لیے آپؓ ہمارے ساتھ چلیں تاکہ صفائی ہو جائے اور بدگمانی دور ہو جائے۔ہانیؓ اندر گئے اور حضرت مسلم بن عقیل ؓ سے بات کی۔ اور تیار ہو کر امرا کے ساتھ ابن ِ زیا د کے پاس چلے گئے۔گورنر ہاﺅس پہنچ کر جب ہانی ؓ نے ابن ِ زیاد کو سلام کیا تو اس نے سلام کا جواب نہ دیا۔ ہانی اس سلوک پر متعجب ہوئے اور دل میں کھٹکا اور خوف محسوس ہوا۔کچھ دیر بعد ابن ِ زیادنے کہا، ا ے ہانیؓ!مسلم بن عقیلؓ کہاں ہے؟انھوں نے کہا

مجھے معلوم نہیں۔ اس پروہ یمنی غلام اٹھ کھڑا ہوا جو حمص( شام) کے مسافر کے روپ میں قیام پذیر رہا تھا۔ اور اس نے ہانیؓ کے سامنے حضرت مسلم بن عقیل ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔اور 3000 درہم کا نذرانہ بھی پیش کیا تھا ۔ابن ِ زیاد نے پوچھا کہ کیا تم اس کو جانتے ہو؟ہانیؓ نے کہا ہاں۔ غلام کو دیکھ کر نادم ہوئے اور کہا اے امیر! خدا آپ کا بھلا کرے۔ خدا کی قسم میںنے انہیں اپنے گھر آنے کی دعوت نہیں دی تھی بلکہ وہ اپنے آپ میرے گھر آ گئے تھے۔ ابن ِ زیا د نے کہا پھر انہیں یہاں لے آﺅ۔
ہانی ؓنے کہا کی خدا کی قسم! اگر وہ میرے پاﺅں کے نیچے بھی ہوتے تو میں انؓ کے اوپر سے پاﺅں نہ اٹھاتا ۔یہ سن کر ابن ِ زیاد نے کہا اسے میرے قریب لاﺅ ۔جب ہانی ؓ کو ابن زیاد کے قریب لایا گیا تو اس نے ہانی ؓکے چہرے پر نیزے سے وار کیا جس سے انؓ کا چہرہ اور ناک زخمی ہو گیا۔ہانی،ؓ ابن ِ زیاد پر حملہ کرنے کے لیے ایک سپاہی سے تلوار چھین کر سونتنے لگے تو لوگوں نے انہیں پکڑ لیا۔ابن ِ زیاد نے کہا کہ اب تم نے اپنا خون حلال کر دیا ہے کیوں کہ تم خارجی ہو۔اس کے بعد ابن ِ زیاد کے حکم سے انہیں ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ہانی ؓ کی قوم بنی مزحج یہ سمجھ کر کہ قتل کر دیے گئے ہیں،گورنر ہاﺅس کے دروازے پر جمع ہو گئی۔ ابن ِ زیاد نے ان کاشورو غل سنا تو قاضی شریح سے، جو ان کے پاس تھے کہا آپ ان لوگوں کے پاس جائیں اور کہیں کہ امیر نے انہی صرف مسلم بن عقیلؓ کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے روک رکھا ہے۔قاضی شریح نے انہیں جا کر کہا کہ تمہارے سردار زندہ ہیں اور امیر نے انہیں اک ہلکی سی ضرب لگائی ہے۔ تم واپس چلے جاﺅ۔خود کو اوراپنے سردار کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اس پر وہ سب اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ۔
حضرت مسلم بن عقیل ؓ نے جب یہ خبر سنی تو سوار ہو کر نکل آئے اور اپنے حامیوں کو مدد کے لیے بلایا ۔فوراً ہی چار ہزارکوفی آپ ؓ کے گرد جمع ہو گئے۔آپ ؓانہیں لے کر ابن ِ زیاد کی طرف روانہ ہو گئے۔راستے میں آپ ؓ لوگوں کو ہانی ؓ کے معاملے کی طرف توجہ دلاتے رہے اور انہیں اختلاف و انتشار سے بچنے کی تلقین کرتے رہے۔ اس دوران گورنر ہاﺅ س کے محافظوں نے آپ ؓ کو دیکھ لیا اور چلائے کہ مسلم بن عقیل ؓ آ گئے ہیں ۔ابن ِ زیا د اور اس کے ساتھی بھاگ کر محل میں داخل ہو گئے اور دروازے بند کر لیے۔
حضرت مسلم بن عقیل ؓ محل کے دروازے پر پہنچ کر اپنے لشکر سمیت ٹھہر گئے ۔مخالف قبائل کے سردار جو کہ اس وقت ابن ِ زیاد کے پاس موجود تھے ابن ِ زیاد کے حکم سے محل کی دیواروں پر چڑھ گئے۔ اور اپنی اپنی قوم کے ان آدمیوں کو جو حضرت مسلم بن عقیل ؓ کے ساتھ تھے انہیں واپس چلے جانے کو کہا ۔اور ان سے کچھ وعدے بھی کیے اور ڈرایا دھمکایا بھی۔ اس کے علاوہ ابن ِ زیا د نے کچھ سرداروں کو محل کے باہر بھی بھیجا تاکہ دوسرے لوگوں کو مسلم بن عقیل ؓ کی حمایت سے باز رکھ سکیں اور ساتھ والوں کو خبر دار کر سکیں جس میں وہ کامیاب رہے۔انہوں نے کچھ اور حربے بھی استعمال کیے یعنی کسی عورت کو اس کے بیٹے ، بھائی کے پاس بھیجا اور انہیں امام کا ساتھ چھوڑ کر گھر چلنے کی یوں ترغیب دی کہ حضرت مسلم بن عقیل ؓ کے پاس تمہارے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ موجود ہیں۔تمہارے چلے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔کچھ لوگ اپنے عزیزوں کے پاس آئے اور انہیں شامی فوجوں کی طاقت سے مرعوب کیا۔ فوج کی شام سے روانگی کی خبر سنی اور واپس نہ جانے کی صورت میں شامی فوج سے مقابلہ اور انجام سے ڈرایا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ لوگوں نے حضرت مسلم بن عقیلؓ کا ساتھ چھوڑنا شروع کر دیا اور نمازِ مغرب تک صرف تیس آدمیوں کی مٹھی بھر جماعت آپ ؓ کے ساتھ رہ گئی۔آپ ؓ نے انہی تیس افراد کے ساتھ نمازِ مغرب ادا کی اور آہستہ آہستہ وہ بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ اور اب یہ حالت تھی کہ کوئی بھی حامی یا ہمدردی جتانے والا بھی ساتھ نہ تھا ۔اندھیرا چھا گیا۔ اور آپ ؓ پریشانی کے عالم میں چلتے رہے ۔ اور طوعہ نامی ایک عورت کے دروازے پر جا پہنچے۔جو اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھی اپنے بیٹے بلال کا انتظار کر رہی تھی ۔ حضرت مسلم بن عقیل ؓ نے اس عورت سے کہا مجھے پانی پلائیں۔ اس نے آپؓ کو پانی پلایا اور کچھ دیر کے لیئے اندر چلی گئی ۔دوبارہ جو باہر نکلی تو بدستور اجنبی کو دروازے پر پایا۔ اس نے پوچھا کہ کیا تم نے پانی نہیں پیا ؟ آپ ؓ نے فرمایا کہ پی لیا ہے۔ تو وہ بولی کہ بعافیت سے چلو اور اپنے گھر جاﺅ۔تمہارامیرے گھر کے دروازے پہ کھڑا رہنا مناسب نہیں۔اس پر آپ ؓ جانے لگے تو فرمایا کہ اے اللہ کی بندی! اس شہر میں میرا کوئی گھر اور قرابت داری نہیں۔کیا آپ مجھ پر ایک احسان کریں گی جس کا کل ہم آپ کو اتنا اجر بھی دیں گے جو آپ کو کفایت بھی کرے گا۔ اس نے کہا کہ بندئہ خدا وہ کیا احسان ہے؟ آپؓ نے کہا کہ میں مسلم بن عقیل ؓ ہوں اور اس قوم نے مجھ سے جھوٹ بولا اور دھوکہ دیا ہے۔ اس نے کہا کہ آپ مسلم بن عقیل ؓہیں؟آپ ؓ نے فرمایا کہ ہاں۔ اس عورت نے کہا کہ آپ ؓ اندر آ جائیں ۔پھر اس عورت نے آپ ؓ کے لیے اک علیحدہ کمرے میں بچھونہ بچھا دیا اور رات کو کھانا پیش کیا ۔ مگر آپ ؓ نے کھانا نہ کھایا ۔ تھوڑی دیر بعد اس عورت کا بیٹا بھی آ گیا ۔جب اس نے اپنی ماں کو بار بار اس کمرے میں آتے جاتے دیکھا تو پوچھا کہ معاملہ کیا ہے ؟اس عورت نے کہا کہ بیٹا اس بات کو چھوڑو مگر جب بیٹے نے اصرار کیا تو اس کی ماں نے راز فاش نہ کرنے کا عہد لے کر اسے حضرت مسلم بن عقیل ؓ کا حال بتایا۔اس پر وہ ساری رات خاموشی سے لیٹا رہا اور کوئی بات نہ کی۔
ادھر ابن ِ زیاد اپنے امراءاور اشراف کے ساتھ محل سے نیچے اترا اور جامع مسجد میں نماز ادا کی۔ نماز کے بعد امراءسے حضرت مسلم بن عقیل ؓ کا مطالبہ کیا اورا علان کیا کہ جس کے پاس وہ پائے گئے اور اس نے ہمیں اطلاع نہ دی تو اسکا خون ہمارے لیے مباح ہو گا۔اور جو شخص انہیں لے آئے گا اسے انعام دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ابن ِ زیاد نے مسلم بن عقیل ؓ کی تلاش کا کام پولیس کے سپرد کیا اور انہیں سختی سے چوکس رہنے کی ہدایت کی۔
علی الصبح اس بڑھیا کے بیٹے نے بھاگم بھاگ عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کو امام مسلم ؓ کے اپنے گھر میں موجودگی کی اطلاع جا پہنچائی۔جس نے اپنے والد سے ابن ِ زیاد کے دربار میں سرگوشی کی ۔ عبدالرحمن کا باپ اس وقت ابن ِ زیاد کے پاس بیٹھا تھا۔ابن ِ زیاد نے پوچھا کہ تم سے کیا کہا گیا ہے۔ تو اس نے مسلم بن عقیل ؓ کی خبر کے بارے میں بتا دیا۔ابن ِ زیاد نے اپنی چھڑی سے اس کوپہلو میں ہلکا سا ٹھوکا دیا اور اسے کہا کہ اٹھو اسے ابھی میرے پاس لے آﺅ۔ ابن ِ زیاد نے عمر بن حریث مخزومی جو کہ اک پولیس افسر تھا کو ستر ،اسی آدمیوں کے ساتھ عبد الرحمن اور محمد بن اشعث کے ہمراہ حضرت مسلم بن عقیل ؓ کی گرفتاری کے لیے بھیج دیا۔حضرت مسلم ؓکو اس وقت خبر ہوئی جب اس مکان کا گھیراﺅ کر لیا گیا۔جس میں آپ ؓ موجود تھے۔جب وہ لوگ مکان میں داخل ہوئے تو آپ ؓ تلوار لے کر کھڑے ہو گئے اور3 بار انہیں مکان سے باہر دھکیلا ۔مگر آپ ؓ کے اوپر اور نیچے کے دونوں ہونٹ زخمی ہو گئے۔ اس کے بعد وہ پتھر برسانے لگے اور آگ کے گولے اندر پھینکے جس سے آپ ؓ کا دم گھٹنے لگا۔ اس لیے آپ ؓ تلوار لے کر باہر آ گئے اور ان سے مقابلہ کرنے لگے ۔اس پر عبدالرحمن نے آپؓ سے امان اور پناہ دینے کا اعدہ کیا اور اس طرح سے آپ ؓ کو گرفتار کرنا آسان ہو گیا۔
ابن ِ زیاد کے سپاہیوں نے آپ ؓ سے تلوار چھین لی اورسواری کے لیے اک خچر لے آئے۔ اب آپ ؓ کی ملکیت میں سوائے آپؓ کی ذات کے اور کوئی چیز باقی نہ رہی۔ اس وقت آپؓؓ نے سمجھ لیا کہ مجھے قتل کر دیا جائے گا ۔کچھ سوچ کر آپؓ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ یہ دیکھ کر اک شخص عبداللہ بن عباس سلمی نے کہا کہ جس چیز کے طلبگا ر ہو اس کے طلب گاروں پر جب کوئی مصیبت آن پڑے تو وہ رویا نہیں کرتے ۔آپ ؓ نے جواب دیا بخدا میں اپنے لیے نہیں روتا اور نہ ہی اپنی موت پر روتا ہوں بلکہ میں تو حضرت امام ِ حسین ؓ اور آل ِ امام ؓ کے لیے روتا ہوں
پھر آپ ؓمحمد بن اشعث کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اے اللہ کے بندے ! میرا خیال ہے کہ تم مجھے پناہ دینے کا عہد پورا نہ کر سکو گے۔ کیا تم بھلائی کر سکتے ہو کہ میری طرف سے امامِ حسینؓ کی طرف کسی آدمی کو بھیج دو کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ گزشتہ کل یا آج اپنے اہل و عیال کے ساتھ تمہاری طرف روانہ ہو چکے ہوں گے ۔مجھے انؓ کی بہت فکر ہے۔ قاصد انہیں جا کر کہے کہ مجھے ابنِ عقیل ؓ نے بھیجا ہے جو کہ قوم کے ہاتھوں گرفتا رہے ۔ اور جو معلوم نہیں صبح یا شام کو قتل ہو جائے گا۔ آپ ؓ اپنے اہل و عیال کے ساتھ واپس چلے جائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ اہل ِ کوفہ آپؓ کو بھی دھوکہ دیں ۔ یہ آپ ؓ کے والد کے وہی اصحاب ہیں جو ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں خواہ ان کی طبعی موت کی صورت میں واقع ہوتا خواہ ان کے قتل کی صورت میں ۔اہل ِ کوفہ نے آپؓ سے اور مجھ سے جھوٹے وعدے کیے تھے اور دروغ گو کی کوئی رائے نہیں ہو تی۔
اس پر ابن اشعث نے کہا کہ خدا کی قسم میں یہ کام ضرور کروں گا ۔ابن اشعث نے وہ ساری باتیں جو حضرت مسلم بن عقیل ؓ نے کہی تھیں اک خط میں لکھ کر اک شخص کو سواری کا جانور اور اہل و عیال کا خرچ دے کر روانہ کر دیا۔ وہ شخص کوفہ سے روانہ ہو کر چار راتوں کی مسافت پر حضرت امام حسین ؓ سے ملا۔انہیں حضرت مسلم بن عقیل ؓ کا خط دیا اور سارے حالات گوش گزار کیے۔ اس پر حضرت امام ِ حسین ؓ نے فرمایا جو مقدر ہو چکا ہے وہ نازل ہو کر رہے گا۔ ہمارا اور ہمارے حمایتیوں کا فیصلہ خدا کے حضور ہو گا۔
جب حضرت مسلم بن عقیل ؓ زخمی حالت میں اور خون آلود چہرے اور لباس کے ساتھ تشنہ لب گورنر ہاﺅس پہنچے تو وہاں امراءاور کچھ دوسرے لوگ بھی ابن ِ زیاد سے ملنے کے لیے اجازت کے منتظر تھے جن سے حضرت مسلم بن عقیل ؓ کی جان پہچان تھی۔وہاں اک طرف ٹھنڈے پانی کا اک مٹکا پڑا تھا۔ حضرت مسلم بن عقیل ؓ نے اس میں سے پانی پینے کا ارادہ کیا تو اک آدمی نے کہا کہ خدا کی قسم جہنم کا کھولتا ہوا پانی پینے سے پہلے تو اس مٹکے کا پانی نہیں پیئے گا ۔آپ ؓ نے اسے کہا کہ کھولتا ہوا پانی پینے اور ہمیشہ کے لیے بھڑکتی آگ میں داخل ہونے کا تُو زیادہ حق دار ہے۔ آپ ؓ تھکاوٹ اور پیاس کی شدت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔اس پر عمارہ بن عقبہ بن ابی معیط نے اپنے غلام کو بھیج کر گھر سے ٹھنڈے پانی کا اک پیالہ منگوا لیا۔عمارہ کا غلام پانی بھربھر کے آپ ؓ کو دینے لگا۔ مگر ۳ بار کی کوشش کے باوجود آپ ؓ پانی حلق سے نیچے نہ اتار سکے ۔کیوں کہ اس میں چہرے کا خون مل جاتا تھا ۔کافی کوشش کے بعد جب آپ ؓ نے پانی پیا تو پانی کاپیالہ ہٹاتے ہی آپ ؓ کے سامنے کے دو دانت نیچے گر گئے۔اس پر آپؓ نے فرمایا کہ الحمد للہ... رزق ِ مقسوم میں سے پانی پینا ابھی میرے لیے باقی تھا۔
اس کے بعد حضرت مسلم بن عقیلؓ کو ابنِ زیاد کے سامنے پیش کیا گےا جب آپ ؓ اس کے سامنے پیش ہوئے تو آپ ؓ نے سلام نہ کیا ۔دربان نے پوچھا کیا تم امیر کو سلام نہیں کرتے ؟ آپ ؓنے کہا نہیں ۔ اگر اس کاارادہ مجھے قتل کرنے کا ہے تو مجھے اس کی حاجت نہیں ۔اور اگر اس کا ارادہ مجھے قتل کرنے کا نہیں تو اسے سلام کرنے کے اور بہت سے مواقع پڑے ہیں
اب ابنِ زیاد آپؓ سے مخاطب ہوا کہ اے ابنِ عقیل !لوگوں میںاتفاق اور یکجہتی تھی اور ان کی بات ایک تھی۔ تم آئے اور ان میں پھوٹ ڈال دی ۔ ان کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا۔ آپ ؓ نے کہا

ہرگز نہیں ۔میں اس کام کے لیے نہیں آیا بلکہ میرا آنا تو اس لیے ہے کہ عدل و انصاف قائم ہو اور اللہ کی کتاب کا حکم نافذ ہو (البدایہ و النہایہ