حضرت مسلم بن عقیل ؓ کی شہادت

حضرت مسلم بن عقیل ؓ اور ابن ِ زیاد کے درمیان طویل گفتگو ہوئی ۔جس میں ابن ِ زیاد مختلف الزامات لگاتا رہا اور آپ ؓ ان الزامات کا جواب دیتے رہے۔اور آخر کار آپ ؓ نے جان لیا کہ اس نے آپ ؓ کو قتل کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے تو آپ ؓ نے اسے کہا کہ مجھے وصیت کرنی ہے مہلت دو۔ابن ِ زیاد نے کہا کہ آپ ؓ وصیت کر سکتے ہیں ۔آپ ؓ نے حاضرین پر نظر ڈالی تو ان میں عمر بن سعد بن ا بی وقاص بھی موجود تھا۔آپ ؓ نے اسے کہا کہ عمر! تم سے میری قربت داری ہے۔ میرے ساتھ محل کے ایک گوشے میں چلو تاکہ تم سے اکیلے میں بات کر سکوں۔ لیکن عمر بن سعد نے آپ ؓ کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔
آخر ابن ِ زیاد نے اس کی اجازت دے دی اور وہ ابن ِ زیاد کے قریب ہی علیحدگی میں کھڑا ہو گیا ۔ حضرت مسلم بن عقیلؓ نے کہا کہ مجھے 700 درہم قرض دینے ہیں تم میری طرف سے یہ قرض ادا کر دینا۔ ابن ِ زیاد سے میری لاش مانگ کر دفن کر دینا۔اور حضرت امام حسین ؓکو میرا پیغام دے دینا کہ وہ کوفہ کی طرف ارادہ نہ کریں ۔میں نے انؓکو لکھا تھا کہ لوگ آپ ؓکے ساتھ ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ روانہ ہو گئے ہوں گے۔کوفہ میں میرے دو بچے کسمپرسی کی حالت میں ہیں جو ابھی کچھ دیر بعد یتیم ہو جائیں گے۔ ان کومیرے بھائی حسیبؓ کے پاس پہنچا دینا۔
عمر بن سعد نے حضرت مسلم بن عقیل ؓ کی تمام باتیں ابن زیاد کو بتا دیں۔اس نے تمام وصیتوں پر عمل کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد ابن ِ زیاد کے حکم سے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو گورنر ہاﺅس کے اوپر لے جایا گےا۔ وہ تکبیر و تہلیل اور تسبیح و استغفار اور درود ِ پاک پڑھتے اوپر چڑھ گئے ۔ اور دعا مانگی کہ اے اللہ !تُو ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے جس نے ہمیں دھوکہ دیا اور ہمارا ساتھ چھوڑ گئے ہیں اس کے بعد جلاد نے آپ ؓ کا سر مبارک تن سے جدا کر دیا۔
ابن ِ زیاد نے ہانی بن عروہ ؓ کے قتل کا حکم دیا ۔ہانی کو قتل کر دیا گیا اور ان کی لا ش کوفہ کے مقام ِ کناسہ پر لٹکا دی گئی۔بعد میں ابن ِ زیاد نے کچھ دوسرے لوگوں کو بھی قتل کیا اور شام کی طرف سارے واقعات یزید کو لکھ کر بھیج دیے۔(البدایہ و النہایہ