شہادت ِ فرزندان ِ حضرت مسلم بن عقیل ؓ

حضرت مسلم بن عقیلؓ کوفہ کے بگڑے ہوئے حالات کو دیکھ کر اپنے بچوں حضرت محمد ؓ اور حضرت ابراہیمؓ کو قاضی شریح کے ہاں حفاظت کی غرض سے بھیج چکے تھے۔ تاریخ کی کتب میں یہ بھی آتا ہے کہ محمدؓ و ابراہیمؓ دونوں ہی معصوم تھے۔ ان کو بھی حضرت مسلم بن عقیل ؓ کی شہادت کے بعد شہید کر دیا گیا ۔
”روضة الشہدائ“ میں ملا حسین کاشفی نے اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان کی ہے کہ حضرت مسلم بن عقیل ؓ نے ان دونوں شہزادوں کو یہ کہہ کر قاضی شریح کے پاس بھیج دیا تھا کہ بیٹو!تم ادھر ٹھہرو ۔میں تمہارے چچا ہانیؓ کی رہائی کے لیے جنگ کرنے جا رہا ہوں اور ابھی لوٹ آتا ہوں ۔ وہ دونوں اسی لمحے سے اپنے باپ کے لوٹنے کا انتظار کر رہے تھے۔ دن گزرا پھر رات گزر گئی۔ حضرت مسلم بن عقیل ؓ نے واپس آنا تھا نہ وہ واپس آئے ۔بچے پریشانی میں کچھ کھا پی بھی نہیں رہے تھے۔قاضی شریح بھی بچوں کی حالت دیکھ کر آہ بھر کر سر جھکا لیتے ۔ کیونکہ وہ بچوں کو اصل بات بتانے کی ہمت نہیں کر پا رہے تھے۔دو دن کچھ نہ کھایا اور انتظار کیا ۔اور انتظار طویل ہو گیا تو ابرہیم ؓ اپنے بڑے بھائی سے کہنے لگا کہ بھائی !خدا جانے کہ ابا جان کب آئیں گے ؟ میں تو مدینے کی گلیوں اور دوستوں کے لیے اداس ہو گیا ہوں ۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں اُڑ کے مدینے پہنچ جاﺅں۔ میرے دوست کیا کہیں گے کہ ابراہیم ہمیں کوفہ جا کر بھول گیا۔ ایسی ہی معصوم باتیں آپس میں کرتے جسے سن کر قاضی شریح اور ان کے گھر والوں کا کلیجہ منہ کو آ جاتا۔
اسی دوران میں کوفے کی گلیوں میں یہ ا علان ہونے لگا کہ جو کوئی مسلم بن عقیل ؓ کے دونوںبیٹوں کو گرفتار کر کے لائے گا اسے انعام و اکرام سے نوازاجائے گا ۔اور جو شخص انہیں اپنے گھر میں پناہ دے گا اسے سخت سزا دی جائے گی۔ اس پر جاسوس بچوں کو ہر طرف تلاش کرنے لگے۔اب قاضی شریح سے نہ رہا گیا اور وہ دل تھام کر بڑی پریشانی کی حالت میں شہزادوں کے ساتھ عرض کرنے لگا میں بڑے افسوس کے ساتھ تمہیں یہ خبر سنانے پر مجبور ہوگیا ہوں کہ تمہارے بابا حضرت مسلم بن عقیل ؓ کو شہید کر دیا گےا ہے۔اورہزاروں کوفی جو کل تک تمہارے ہاتھ چومتے تھے اور تمہارے دامن چھو چھو کر اپنی آنکھوں سے لگاتے تھے اور تمہارے بابا کے ہاتھ پر بیعت کر کے انؓ کی خاطر کٹ مرنے کا اعلان کرتے تھے سب کے سب تمہارا ساتھ چھوڑ چکے ہیں ۔اب سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ تم چپکے سے مدینہ چلے جاﺅ۔ اگر میں مزید تمہیں یہاں ٹھہراﺅں تو کسی بھی لمحے تمہاری گرفتاری عمل میں آسکتی ہے۔انہوں نے اپنے بیٹے اسد کو بلا کر کہا میں نے سنا ہے کہ آج باب العراقین سے ایک قافلہ مدینہ روانہ ہونے والا ہے۔ان دونوں کو وہاں لے جاﺅ اور کسی ہمدرد اور محبِ اہل ِ بیت کے سپرد کر کے اس کو حالات سے آگاہ کر دینا۔ اور تاکید کر دینا کہ ان دونوں کو بحفاظت مدینے پہنچا دے۔اسد جب ان دونوں کو لے کر پہنچا تو پتہ لگا کہ قافلہ کچھ دیر پہلے ہی چلا گیا۔ وہ بچوں کو لے کر تیزی سے آگے بڑھا اور جب قافلے کی گرد نظر آئی تو بچوں کو قافلے کی گرد دیکھ کر کہا کہ وہ دیکھو قافلے کی گرد نظر آ رہی ہے۔ تم لوگ جلدی سے جا کر ان میں مل جاﺅ۔میں واپس جاتا ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ واپس چلا گےا اور بچے تیزی سے آگے بڑھنے لگے ۔مگر تھوڑی دیر بعد گرد غائب ہو گئی ۔ اور انہیں قافلہ نہ ملا ۔معصوم بچے ان حالات اور تنہائی سے گھبرا کر رونے لگے۔
ابن ِ زیاد کاا علان سن کر مال و متاع کا لالچ رکھنے والے سپاہی بچوں کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے ۔تھوڑی دیر بعد انھوں نے بچوں کو پکڑ لیا۔اور ابن ِ زیاد کے پاس پہنچا دیا۔اس نے حکم دیا کہ ان کو تب تک جیل میں رکھو جب تک میں امیرالمومنین یزید سے پوچھ نہ لوں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔ جیل کے داروغہ کا نام مشکور تھا ۔وہ محبِ اہل ِ بیت تھا ۔اسے بچوں کی بے بسی پر بہت ترس آیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ بچوں کی جان بچانی ہے چاہے اپنی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ وہ رات کے اندھیرے میں بچوں کو جیل سے نکال کر اپنے گھر لے آیا ۔کھانا کھلایا اپنی انگوٹھی بطور نشانی دی۔ اور انہیں قادسیہ کی راہ پر لگا کر کہا کہ تم لوگ اسی راستے پر چلتے جاﺅ۔ جب قادسیہ پہنچ جانا تو کوتوال سے ملنا اور اسے میری انگوٹھی دکھانا اور سارے حالات بتانا ۔وہ ہمارا بھائی ہے وہ تم لوگوں کو بحفاظت مدینہ پہنچا دے گا۔
دونوں بچے قادسیہ کی راہ پر چل پڑے۔ مگر چونکہ اُنہیں بھی اس چھوٹی عمر میں شہادت سے سرفراز ہونا تھا اس لیے وہ راستہ بھول گئے۔رات بھر چلنے کے بعد جب صبح ہوئی تو دونوں بھائی گھوم پھر کر اسی جگہ پہنچے جہاں سے کوفہ کے باہر قادسیہ کے راستے پر چلے تھے۔ یہ دیکھ کر ان کے معصوم دل دہل گئے ۔وہ خوف زدہ ہو گئے کہ کہیںپھر کوئی پکڑ کر ابن ِ زیاد کے پاس نہ پہنچا دے۔ انہیں قریب ہی اک کھوکھلا درخت نظر آیا۔ دونوں اسی درخت کی آڑ میں جا کر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد اک لونڈی پانی بھرنے آئی۔ اس نے جب بچوں کو دیکھا تو قریب آئی اور ان دونوں کے نورانی چہروں میں شان ِ شہزادگی دیکھ کر کہاشہزادو! تم لوگ کون ہو اور یہاں کیوں چھپے بیٹھے ہو؟انہوں نے کہا ہم یتیم اور بے بس ہیں اور راہ بھٹکے ہوئے مصیبت زدہ مسافر ہیں۔لونڈی نے کہا تمہارے باپ کا نام کیا ہے؟باپ کا نام سنتے ہی ان دونوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگے۔ اس نے کہا کہ تم مسلم بن عقیل ؓ کے بیٹے ہو؟ تو وہ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔لونڈی نے کہا میں جس کی لونڈی ہوں وہ محب ِاہل ِ بیت ہیں۔آﺅ چلو ان کے پاس لے جاتی ہوں ۔دونوں بھائی اس کے ساتھ چل پڑے۔
لونڈی انہیں اپنی مالکہ کے پاس لے گئی اور سارا واقعہ بتایا۔ مالکہ ان دونوں شہزادوں کی آمد پر بہت خوش ہوئی ۔ اس خوشی میں اس نیک مالکہ نے اس لونڈی کو آزاد کر دیا۔اور دونوں شہزادوں کے ساتھ بڑی محبت سے پیش آئی ۔اور تسلی دلائی کہ فکر نہ کرو اور لونڈی سے کہا کہ ان دونوں کی تشریف آوری کا راز پوشیدہ رکھے۔ میرے شوہر حارث کو نہ بتانا ۔
ادھر ابن زیاد کو جب معلوم ہوا کہ مشکور داروغہ نے دونوں بچوں کو رہا کر دیا ہے تو اس نے مشکور کو بلا کر پوچھا کہ تم نے دونوں بچوں کا کیا کیِا ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا اور خوشنودی کے لیے ان دونوں کو رہا کر دیا ہے۔ ابن ِ زیاد نے کہا کہ تو مجھ سے ڈرا نہیں ؟ اس نے کہا جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا ۔ابن ِ زیاد نے کہا تجھے ان بچوں کی رہائی پر کیا ملا ؟ مجھے امید ہے کہ انہیں رہا کرنے کے سبب حضور ِ انور ﷺ قیامت کے روز میری شفاعت فرما دیں گے۔ البتہ تو مسلم بن عقیل ؓ کو شہید کرنے کے سبب اس سعادت سے محروم رہے گا۔ ابنِ زیاد اس جواب سے غضب ناک ہو گیا اور کہا کہ میں ابھی تجھے سخت سزا دیتا ہوں۔ اس پر مشکور نے کہا ایک نہیں ہزار جانیں بھی ہوں تو اب ان پر قربان ہیں ۔ ابن ِ زیاد نے کہا کہ اس کو اتنے کوڑے مارو کہ یہ مر جائے اور پھر اس کا سر تن سے جدا کر دو۔ جلاد نے جب کوڑے مارنے شروع کیے تو مشکور نے پہلے کوڑے پر کہا بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ دوسرے پر کہا الہ العالمین! مجھے صبر عطا فرما۔ تیسرے کوڑے پر کہا خدا وند! مجھے بخش دے۔ چوتھے پر کہا الہ العالمین! مجھے اہل ِ بیت ِ نبوت کی محبت میں یہ سزا مل رہی ہے۔پانچویں پر کہا یا الہی! مجھے اپنے رسولِ پاک ﷺ اور ان کے بیت ِ اطہار کے پاس پہنچا دے۔ پھر اس کے بعد خاموش ہو گئے اور جلاد نے ان کاکام تمام کر دیا۔( انا للہ وا نا الیہ راجعون)
ادھر وہ نیک بی بی دن بھر ان دونوں شہزادوں کی خدمت میں لگی رہی۔اور ہر طرح سے ان کی دل جوئی کرتی رہی۔پھر رات کو کھانا کھلا کر ان دونوں کو الگ کمرے میں سلا کر واپس ہی آئی تھی کہ اس کاشوہر حارث آگیا۔عورت نے پوچھا آج دن بھر آپ کہاں تھے ؟ حارث نے کہا کہ داروغہ مشکور نے مسلم بن عقیل ؓ کے بچوں کو رہا کر دیا تو امیر عبیداللہ بن زیاد نے ا علان کیا کہ جو شخص ان کو پکڑ کر لائے گا اسے بہت انعام دیا جائے گا۔میں انہی بچوں کی تلاش میں دن بھر پریشان رہا۔ یہاں تک کہ اس بھاگ دوڑ میں میرا گھوڑا بھی مر گیا ۔ اور مجھے ان کی تلاش میں پیدل چلنا پڑا۔عورت نے کہا کہ اللہ سے ڈرو اور اہل ِ بیت کے بارے میں ایسا خیال دل سے نکال دو۔ اس نے کہا چپ رہ تجھے کیا معلوم کہ ابن ِ زیاد نے کہا ہے کہ جو شخص ان بچوں کو لائے گا وہ اسے مالا مال کر دے گا۔ اور لوگ بھی بچوں کی تلاش میں لگے رہے ہیں۔ عورت نے کہا کہ کتنے بدنصیب ہیں لوگ جو دنیا کہ خاطر ان یتیم بچوں کو دشمن کے حوالے کرنے کے لیے تلاش میں لگے ہوئے ہیں ۔ اور اس دنیا کے عوض اپنا دین برباد کر رہے ہیں۔ کل حشر میں وہ رسول ِ خدا ﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے۔حارث کا دل تباہ ہو چکا تھا۔ بیوی کے سمجھانے کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔اس نے کہا کہ نصیحت کی ضرورت نہیں ہے۔میں نفع نقصان خود سمجھتا ہوں۔ چل تو کھانا لا اور وہ کھانا کھا کر سو گیا۔
آدھی رات کے بعد بڑے بھائی محمد ؓنے خواب دیکھا اور بیدار ہو کر چھوٹے بھائی کو جگاتے ہوئے کہا کہ اٹھو اب سونے کا وقت نہیں رہا۔ ہماری شہادت کا وقت بھی قریب آ گیا ہے۔ ابھی میں نے ابا جان کو دیکھا وہ نبی ِ کریم ﷺ ، حضرت علی ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت حسن ؓ کے ساتھ جنت کی سیر کر رہے ہیں۔ اور حضور ِ پاک ﷺ ابا جان سے فرما رہے ہیں کہ تم چلے آئے اور اپنے بچوں کو ظالموں میں چھوڑ آئے ۔تو ابا جان نے عرض کیا کہ وہ بھی عنقریب آنے والے ہیں۔چھوٹے بھائی نے کہاکہ بھائی جان میں نے بھی اسی طرح کا خواب دیکھا۔ کیا سچ میں ہم لوگ کل صبح قتل کر دیئے جائیں گے؟ ہائے ہم اک دوسرے کو قتل ہوتے کیسے دیکھیں گے ۔یہ کہہ کر دونوں بھائی ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر رونے لگے۔
ان کے رونے سے حارث کی آنکھ کھل گئی ۔ اس ظالم نے بیوی کو جگا کر پوچھا کہ یہ بچوں کے رونے کی آواز کہاں سے آ رہی ہے؟ عورت بیچاری سہم گئی اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔وہ خود اٹھ کر چراغ جلا کر اس کمرے کی طرف گیا جہاں سے بچوں کے رونے کی آواز آئی تھی۔ جب اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ دو بچے روتے ہوئے بے حال سے ہو رہے ہیں۔ اس نے پوچھا تم کون ہو؟ بچے چونکہ اس گھر کو اپنے لیے پناہ گاہ سمجھے ہوئے تھے اس لیے انہوں نے صاف بتا دیا کہ ہم مسلم بن عقیل ؓ کے شہزادے ہیں ۔ظالم یہ سنتے ہی غصے سے بے قابو ہو گیا۔ اور کہا کہ میں سارا دن ڈھونڈتے ہوئے بے حال ہو گیا اور تم ہمارے ہی گھر میں عیش کر رہے ہو۔ یہ کہتے ہوئے وہ آگے بڑھا اور بے رحمی سے انہیں مارنے لگا ۔اور دونوں بھائی درد اور تکلیف سے رونے چیخنے لگے۔عورت بھاگی آئی اور حارث کے قدموں میں سر رکھ کر نہایت عاجزی سے روتے ہوئے کہنے لگی ارے یہ فاطمہ ؓ کے راج دلارے ہیں۔ان کی چاند جیسی صورتوں پہ رحم کھا لے اورمیرا سر کچل کر ہوس کی آگ بجھا لے۔لیکن ان فاطمہ ؓ کے جگر پاروں کو بخش دے۔حارث بد بخت نے اسے اتنی زور سے ٹھوکر ماری کہ وہ بچاری اک ستون سے ٹکرا کر لہو لہان ہو گئی۔ ظالم جب بچوں کو مارتے مارتے تھک گیا تو دونوں بھائیوں کی مشکیں کس دیں۔ اور دونوں کی زلفوں سے کھینچ کر ایک دوسرے سے باندھ دیا۔اور اس کے بعد یہ کہتا ہوا باہر نکل آیا کہ جس قدرتڑپنا ہے تڑپ لو۔ دن نکلتے ہی میری چمکتی ہوئی تلوار تمہیں ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دے گی۔
صبح ہوتے ہی ظالم نے تلوار اٹھائی ۔زہر میں بجھا ہوا خنجر سنبھالا اور خونخوار بھیڑیے کی طرح کوٹھڑی کی طرف بڑھا۔ جہاں بچے موجود تھے نیک بخت بیوی نے بھاگ کر پیچھے سے اس کی کمرتھا م لی۔ حارث نے اتنے زور سے اسے دھکا دیا کہ اس کا سر ایک دیوار میں جا لگا اور وہ وہیں گر پڑی۔وہ جب کوٹھڑی میں گیا تو چمکتی تلوار اور خنجر دیکھ کر دونوں بھائی کانپنے لگے ۔بد بخت نے آگے بڑھ کر دونوں بھائیوں کو زلفوں سے پکڑا اور نہایت بے دردی سے گھسیٹتا ہوا باہر لایا ۔تکلیف سے دونوںبھائی رونے لگے اور فریاد کرنے لگے لیکن اس ظالم کو ترس نہ آیا۔سامان کی طرح اک خچر پر لاد کر دریائے فرات کی طرف چل پڑاجب اس کے کنارے پر پہنچا تو انہیں خچر سے اتارا اور ان کی مشکیں کھولیں اور انہیں اپنے سامنے کھڑا کیا۔ پھر میان سے تلوار نکالی۔ اتنے میں اسکی بیوی بھی گرتی پڑتی پیچھے آ پہنچی۔ آتے ہی اس نے شوہر کے ہاتھ پکڑ لیے اورخوشامد کرتے ہوئے کہا کہ خدا کے لیے اب بھی مان جاﺅ۔ دیکھو بچوں کی جان سوکھی جا رہی ہے۔ تلوار ان کے سامنے سے ہٹا لو۔ مگر حارث پر پوری طرح شیطان سوار تھا۔ اس نے بیوی پر وار کیا وہ زخمی ہو کر گری اور تڑپنے لگی۔ بچے یہ منظر دیکھ کر اور سہم گئے ۔اب بد بخت اپنی خون آلود تلوار لے کر بچوں کی طرف بڑھا۔ چھوٹے بھائی پہ وار کرنا ہی چاہتا تھا کہ بڑا بھائی چیخ پڑا ۔ خدا کے لیے پہلے مجھے قتل کر دو۔ میں اپنے بھائی کی تڑپتی ہوئی لاش نہیں دیکھ سکتا۔اور چھوٹے بھائی نے بھی کہا کہ میں بھی بڑے بھائی کی لاش کا منظر نہیںدیکھ سکوں گا۔ خدا کے واسطے پہلے مجھے ہی قتل کردو۔ظالم کی تلوار چمکی اور دو ننھی چیخیں بلند ہوئیں اور یتیم بچوں کا سر تن سے جدا ہو گیا۔( انا للہ وا نا الیہ راجعون)