قاتل کا انجام

حارث بد بخت نے بچوں کو شہید کرنے کے بعد ان کی لاش کو دریا ِئے فرات میں پھینک دیا۔اور سروں کو تھیلے میں رکھ کر ابن ِ زیاد کو پیش کیا۔اس نے پوچھا کہ اس میں کیا ہے؟ حارث نے کہا کہ انعام و اکرام کے لیے دشمنوں کے سر کاٹ کر لایا ہوں ۔ابن ِ زیاد نے کہا کہ یہ سر کن دشمنوں کے ہیں ؟ حارث نے کہا کہ مسلم بن عقیلؓ کے فرزند۔ابن ِ زیاد یہ سن کر غضبناک ہو گیا اور کہا کہ تجھے قتل کرنے کا حکم کس نے دیا تھا ؟ کمبخت میں نے امیر کو لکھا ہے کہ مسلم بن عقیلؓ کے فرزند گرفتار ہو گئے ہیں ۔اگر حکم ہو تو میں آپ کے پاس زندہ بھیج دوں۔اگر اب یزید نے زندہ بھیجنے کا حکم دیا تو میں کیا کروں گا؟ تم میرے پاس انہیں زندہ کیوں نہ لائے ؟ حارث نے کہا کہ مجھے اندیشہ تھا کہ شہر کے لوگ مجھ سے چھین لیں گے۔ابن ِ زیاد نے کہا کہ اگر چھین لینے کا ڈر تھا تو کسی محفوظ جگہ پر ان کو ٹھہرا کر مجھے اطلاع کرتے۔میںسپاہیوں کے ذریعے منگوا لیتا۔تم نے میرے حکم کے بغیر ان کو قتل کیوں کیا؟ پھر ابن ِ زیاد نے مجمع پہ نظر ڈالی اور ایک شخص جس کا نام مقاتل تھا اسے کہا کہ اس کمبخت کی گردن مار دو۔چنانچہ حارث کی گردن مار دی گئی۔اور دنیا اور آخرت کا خسارہ پانے والوں میں ہو گیا۔ایک روایت میں بیان کیا جاتا ہے کہ مرنے سے پہلے جب مقاتل اسے گلیوں میں اسی طرح گھسیٹتا ہوا لے جا رہا تھا جس طرح اس نے ان معصوم بچوں کو گھسیٹا تھا تو حارث منتیں کر رہا تھا کہ مجھے اس قدر ذلیل نہ کر اور چھوڑ دے۔مقاتل نے کہا کہ تو آج ساری دنیا کی بھی دولت دے دے تو بھی تجھے نہ چھوڑوں گا تجھے تیری ہی تلوار سے جہنم رسید کروں گا۔