حضرت امام ِ حسینؓ کا کوفہ جانے کا پکا عزم

اہل ِ کوفہ کے خطوط اور وفود کے بعد امامِ عالی مقامؓ نے مسلم بن عقیلؓ کو حالات سے آگاہی کے لیے کوفہ بھیجا تھا آپؓ نے اہلِ کوفہ کی بے پناہ عقیدت اور محبت کو دیکھتے ہوئے امامِ عالی مقام ؑ کو لکھ بھیجا تھا کہ آپؓ تشریف لے آئیں ۔ یہاں ہزاروں افراد آپؓ کی طرف سے میرے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں ۔ چنانچہ حضرت امامِ حسین ؓنے کوفہ جانے کا پکا عزم کر لیا۔ ادھر کوفہ میں جو انقلاب برپا ہو چکا تھا آپؓ ابھی تک اس سے لاعلم تھے۔ جب آپ ؓ خانوادئہ رسول ﷺ کی مقدس خواتین ، بچوں اور رفقا ءکے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ ہونے لگے تو حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے منع کیا اور کہا کہ کوفی بڑے بے وفا اور ناقابل ِ اعتماد ہیں۔ میںآپ ؓکو خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ کوفہ نہ جائیں ۔ اگر اہلِ کوفہ نے موجودہ حکومتی گورنر کو قتل کر دیا ہوتا ۔اپنے دشمنوں کو کوفہ سے نکال دیا ہوتا اور حالات پر قابو ہوتا تو آپ ؓ کا جانا درست تھا ۔لیکن اگر انہوں نے آپؓ کو ایسے حالات میں وہاں بلایا ہے کہ ان کا امیر ان میں موجود ہے اور اس کی حکومت قائم ہے اور اس کے کارندے حکومتی محصولات بدستور وصول کر رہے ہیں تو جان لیجئے کہ انہوں نے آپؓ کو صرف جنگ و جدل کے لیے بلایا ہے۔مجھے تو خوف ہے کہ یہ بلانے والے آپؓ کو دھوکہ دیں گے۔آپؓ کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیں گے بلکہ مجھے تو خدشہ ہے کہ وہ لوگ حکومت ِ وقت کے ساتھ مل کرآپ ؓسے لڑیں گے۔ اس طرح حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ حضرت عبداللہ بن جعفرؓ اور دیگر ساتھی منع کرتے رہے لیکن امامِ عالی مقام ؑ سب کو یہ جواب دیتے رہے کہ اب مسئلہ وفا اور بے وفائی کا نہیں ۔مسئلہ اس دعوت کا ہے جس میں مجھے کلمہ

حق بلند کرنے ، ظلم و جبر کے خلاف جنگ ، شریعت ِ مصطفوی ﷺ کے احیاءاور دینِ اسلام کی قدروں کو پامالی سے بچانے کے لیے میدان ِ عمل میں آنے کو کہا گیا ہے۔سنو میں ان مقاصد کے لیے اپنے ارادے اورموجودہ اقدام سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔
بعض لوگ نادانی میں یا بغضِ اہلِ بیت میں کہہ دیتے ہیں کہ جب یزید کے مقابلے میں حضرت امامِ حسین ؓ کے پاس کافی عسکری فوج و سیاسی حمایت نہ تھی تو آپؓ کا ایسے حالات میں مکہ چھوڑ کر کوفہ کے لیے عازم ِ سفر ہونا معاذ اللہ خروج تھا۔یہ دلیلِ اہلِ بیت کے ساتھ دلی بغض و فساد ہونے یا انتہا درجے کی بے وقوفی کے سواءکچھ نہیں ۔