راہ ِ رخصت اور راہ ِ عزیمت

شریعت ِ مطہرہ میں دو راستے بتائے جاتے ہیں۔ دونوں راستے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے تجویز کردہ ہیں۔ ایک راہ کو راہِ رخصت کہا جاتا ہے اور ایک کو راہ ِ عزیمت۔ اگر حالات ساز گار ہوں،جبر و ظلم اور کفر کی طاقتوں کا صفایا آسانی سے کیا جا سکتا ہو تو ان حالات میں ہر چھوٹے بڑے اور ہر کلمہ گو پر اس ظلم کے خلاف میدانِ کارزار میں نکل آنا فرض اور واجب ہوتا ہے۔ لیکن جب حالات ساز گار نہ ہوں ۔ اسلحہ و عسکری قوت ساتھ نہ ہو باطل زیادہ مضبوط اور زیادہ منظم اور قوی تر ہو تو ایسے حالات میں شریعت نے امت ِ مسلمہ کو دو راستے عطا کر دیے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ رخصت پر عمل کرے اور گوشہ نشین ہو جائے۔ چپکے سے لعنت ملامت کرے اور دل سے بُرا جانے ۔لیکن مسلح تصادم اورکشمکش کے لیے میدان میں نہ آئے ۔
ہر دور میں اکثریت رخصت پر عمل کرتی ہے۔ اور راہ ِ رخصت پر عمل کرنا نہ ہی ناجائز ہے نہ حرام اور نہ ہی اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہر اضطراری حالات میں رخصت کی اجازت دے رکھی ہے۔اب اگر سب کے سب لوگ بلا استثناءایسے حالات میں رخصت پر ہی عمل کرنا شروع کر دیں تو پھر ظلم اور کفر کی طاغوتی طاقتوں کو روکنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس لیے شریعت میں باجود رخصت کی موجودگی کے کچھ لوگ راہ ِ عزیمت پر ہی چل نکلتے ہیں۔ وہ حالات کی سازگاری اورناسازگاری کو نہیں دیکھتے ۔ فوج اور لشکر کی بھاری اکثریت پر نظر نہیں ڈالتے وہ کشمکش میں ناکامی اور کامیابی پر توجہ نہیں دیتے بلکہ ان کی توجہ صرف اور صرف اس امر پر مرکوز ہوتی ہے کہ وہ اپنے تن من کو دین ِ خدا وندی کی سر بلندی کے لیئے کیسے قربان کریں ۔ انہیں ہلکی سی امید ہوتی ہے کہ شاید تن میں لگی ہوئی آگ ہی آئندہ نسلوں کے اندر اندھیروں کو اجالوں میں بدل دے۔ وہ حالات کی ناسازگاری سے نا دانستہ بے خبری اور لا تعلقی اختیار کرتے ہوئے راہ ِ عزیمت پر چلتے ہیں اور اپنی جان پر کھیل جاتے ہیں۔ وہ اپنی شان اور مقام کی مناسبت سے اس اقدام کو فرض سمجھتے ہیں۔ جس طرح ہر شخص راہ ِ رخصت پر عمل نہیں کر سکتا اسی طرح راہ ِ عزیمت پر چلنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔
حضرت امامِ حسینؓ نے یہ اقدام اس لیے کیا تھاکہ انؓ کے رگ و ریشے میں علی ابنِ ابی طالب ؓ کا خون گردش کر رہا تھا اور آپؓنے سیدہ فاطمتہ الزہرہؓ کی گود میں پرورش پائی تھی۔ محبوبِ خدا ﷺ کے مبارک کاندھوں پر سواری کی تھی اور حضور ﷺ کی زبان مبارک کو چوسا تھا۔ اور آپؓ خانوادئہ نبوت کے چشم و چراغ تھے۔ اسی لیے راہِ عزیمت پر اس دور میں عمل کرنا آ پؓ ہی کوشایان تھا۔ پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ راہ ِ رخصت پر عمل بھی اگرچہ راہِ حق ہے اس راہ کو اپنانے والوں کو مطعون کرنا درست نہیں کہ یہ حق انہیں شریعت نے دیا ہے۔لیکن ایسے لوگوں کی راہ کو کوئی شخص اپنا راستہ اور رہنما نہیں بناتا۔ اہلِ محبت اور عشاق ان لوگوں کی راہ پر چلتے ہیں جو راہِ حق پر اپنی گردنیں کٹواتے ہیں۔ وہ قیامت تک کے لیے ایک اسو ئہ ہدایت دے جاتے ہیں۔احیائے دین کے قافلوں کے سفر کو ایک ایسی شاہراہ تعمیر کر کے دے دی جاتی ہے جس پر ہر راہ گزر سہولت سے منزل تک پہنچ جائے۔وہ لوگ جنہوں نے حضرت امامِ حسینؓ کے مقام کو ظاہری حالات کی ناسازی کی بنا پر معاذاللہ خروج اور بغاوت کا الزام دیا۔وہ نہ تو دین کی روح سے واقف ہیں نہ شریعتِ اسلامیہ کے احیاءکے تقاضوں سے ۔وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ دین کی مٹتی ہوئی قدروں کی نشاة ِ ثانیہ کے لیے کیوں کر جان قربان کر دی جاتی ہے اور شاید وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس وقت یزید کا مسندِ خلافت پر بیٹھنا اسلام کی تاریخ کو کس رخ پر ڈال رہا تھا۔ اگر امامِ حسین ؑ میدانِ کارزار میں علمِ حق بلند کرنے کے لیئے نہ نکلتے اور یہ ۲۷تن بھی اپنے خون کا نذرانہ نہ دیتے تو آج اسلام کی جو متاع جمہوری قدروں کی آزادی ، اظہار ِ جاہ و حشمت اور نفاذ ِ شریعت کی مسلسل جد و جہد کی صورت میں نظر آ رہی ہے اس کا کہیں بھی وجود نہ ہوتا۔ اسلام کی پوری تاریخ اور امتِ مصطفی ﷺ حسین ابنِ علی ؑ کے خون کے قطرات اور خانوادئہ رسول ﷺ کی اس عظیم قربانی کی مرہون ِ منت ہے۔جس نے راہِ رخصت کو چھوڑ کر راہ ِ عزیمت کو اپنایا اور اپنا سب کچھ قربان کر دیا مگر اس زمانے کی تاریکیوں اور اندھیروں کو ایسے اجالوں میں بدل گیا جس نے چودہ سو سال سے انسانیت کی راہیں روشن کر رکھی ہیں۔راہِ رخصت پہ چلنے والے ہزاروں کی موجودگی کے باوجود آج بھی دنیا جب بطورِ نمونہ کسی کا نام لیتی ہے تو وہ حسین ابن ِ علی ؑ کا ہی نام لیتی ہے۔سبحان اللہ۔ قربان ہماری نسلیں تا قیامت۔