مکہ سے کوفہ روانگی

حضرت امامِ حسین ؓ مکہ معظمہ سے
۸
ذالحج کو کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔ جب آپؓ روانہ ہونے لگے تو آپؓ کی خدمت میں درخواست کی گئی کہ آپ ؓ کچھ دن اور مکہ میں گزار لیں۔لیکن حضرت امامِ حسینؓ کے سامنے انؓ کے والدِ گرامیؓ کا یہ ارشاد تھا کہ مکہ معظمہ کا تقدس ایک شخص کے سبب پامال ہو گا اور اس ایک شخص کے سبب سے مکہ میں خون بہے گا۔آپ ؓ نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ مکہ میں یزیدی فوج میری گرفتاری کا اقدام کرے اور ہمارے حامی ہمارے دفاع میں تلواریں اٹھا لیں۔اس طرح میرے سبب سے حرم ِ مکہ میں خون بہے۔
امام ِ عالی مقام ؓ توکل بر خدا کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے۔راستے میں صفاح کے مقام پرعرب کے مشہور شاعر فرزوق سے آپ ؓ کی ملاقات ہوئی۔وہ کوفہ سے آ رہا تھا۔فرزوق نے آپ ؓ کو سلام کیا اور دعا دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ ؓ کی مراد پوری کرے۔آپؓ کو وہ چیز عطا فرمائے جس کے آپ ؓ طلب گار ہیں۔ حضرت امام ِ حسینؓ نے پوچھا کہ تمہارے پیچھے لوگوں کا کیا حال ہے۔ اس نے کہا کہ لوگوں کے دل تو آپ ؓ کے ساتھ ہیںمگر ان کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں۔ تاہم قضا ئے الہٰی آسمان سے نازل ہوتی ہے اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ آپ ؓ نے فرمایا تم نے سچ کہا بیشک پہلے بھی اللہ ہی کے ہاتھ میں امر تھا اور بعد میں بھی اسی کے ہاتھ میں اختیار ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ہمارے رب کی ہر روز نئی شان ہے۔اگر قضا ئے الہٰی وہی ہے جو ہم چاہتے ہیں تو ہم اللہ کی نعمتوں پر اس کاشکر ادا کرتے ہیں۔ اور شکر ادا کرنے پر وہی ہمارا مدد گار ہے۔اور اگر قضائے الہٰی ہماری امید کے خلاف ہے تو جس شخص کی نیت صالح ہو اور وہ متقی ہو تو اس کی شکایت نہیں کرتے ۔ اس کے بعد امام ِ عالی مقامؓنے اپنی سواری کو چلایا اور سلام کرتے ہوئے دونوں ایک دوسرے سے رخصت ہو گئے۔
(البدایہ و النہایہ
۔ الطبری
۔ ابن اثیر
فرذوق سے ملاقات کے بعدقافلہ

حسینؑ آگے بڑھا تو آپ ؓ کے بھانجے حضرت عونؓ و محمد ؓ اپنے والد حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ کا خط لے کر پہنچ گئے ۔ خط میں لکھا تھا :
میں خدا کے نام پر آپؓ سے التجا کرتا ہوں کہ میرا یہ خط دیکھتے ہی آپؓ واپس لوٹ آئیں۔جو سفر آپ ؓنے اختیار کیا ہے اس میں مجھے آپ ؓ کی ہلاکت اور آپ ؓ کے اہل ِ بیت کی بربادی کاخوف ہے۔ آج اگر آپ ؓ ہلاک ہو گئے تو اسلام کا نور بجھ جائے گا ۔آپ ؓ ہدایت یافتوں کے رہنما اور اہلِ ایمان کی امید ہیں ۔آپ ؓ سفر میں عجلت نہ کریں ۔اس خط کے پیچھے میں خود آ رہا ہوں ۔ والسلام
حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ نے اپنے بچوں کے ہاتھ یہ خط روانہ کر کے خود امیرِ مکہ عمرو بن سعید سے ملاقات کی اور اسے کہا کہ حضرت امامِ حسینؓ کو ایک خط بھیج دیں جس میں انہیں امان دینے اور نیکی اور احسان کرنے کا وعدہ ہو۔اور خط میں انہیں واپس آنے کی درخواست کی گئی ہو۔ممکن ہے اس طرح وہ مطمئن ہو کر واپس آ جائیں ۔ عمرو بن سعید نے کہا کہ جو کچھ آپؓ لکھنا چاہتے ہیں وہ میری طرف سے لکھ لیں ۔میں اس پر مہر لگا دوں گا ۔اس پر حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ نے جو لکھنا چاہا عمرو بن سعید کی طرف سے لکھا اور اس پر اس نے مہرثبت کر دی۔آپ ؓ نے اس سے مزید کہا کہ میرے ساتھ کسی آدمی کو امان کے طور پر بھیج دو۔ اس پر عمرو بن سعید نے یحٰیی کو آپ ؓ کے ساتھ بھیج دیا ۔حضرت عبد اللہ بن جعفرؓؓ اور یحٰیی خط لے کر روانہ ہو گئے ۔ حتیٰ کہ حضرت امام حسینؓ سے جا ملے اور انہیں یہ خط پڑھ کر سنایا۔ حضرت امام حسینؓ نے واپس آنے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا :
میں نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے آپ ﷺ نے مجھے ایک کام سر انجام دینے کا حکم فرمایا ہے۔ جس کو میں ہر حالت میں انجام دوں گا۔انہوں نے پوچھا وہ خواب کیا ہے۔ آپ ؓ نے فرمایا کہ یہ خواب میں کسی کو نہیں بتاﺅں گا ۔یہاں تک کہ میں اپنے رب سے جا ملوں
امام ِ عالی مقام ؓ نے عمرو بن سعید کی تحریر کا جواب لکھ کر ان کے سپرد کیا ۔ حضرت عبد للہؓ کچھ مجبوریوں کی وجہ سے اس سفر میں آپؓ کے ساتھ نہیں جا سکتے تھے۔ انہوںنے اپنے صاحبزادوں عونؓ و محمدؓ کوآپ ؓ کے ساتھ رہنے کی ہدایت کی اور خود واپس آ گئے