اہل ِ کوفہ کے نام خط

حضرت مسلم بن عقیل ؓ کی شہادت کی خبر ابھی تک حضرت امام ِ حسینؓ تک نہیں پہنچی تھی۔ اس لیے آپ ؓ نے مقام ِ حاجر سے قیس بن مسہرحیداوی کو خط دے کر کو فہ روانہ کیا ۔جس میں آپ ؓ نے لکھا کہ:
” مجھے مسلم بن عقیل ؓ کا خط مل گیا کہ جس میں انہوں نے ہمارے متعلق حسن ِ رائے اور ہماری مدد و حق طلبی کے لیے تمہارے اجتماع کی خبر دی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے مقصد میں کامیاب فرمائے۔ میں آٹھ ذوالحج بروز منگل کو یوم ترویہ کو مکہ سے روانہ ہو چکا ہوں۔جب تمہارے پاس میرا قاصد پہنچے تو مخفی طور پر اپنے کام کے لیے کوشش بڑھا دیں۔میں انشاءاللہ جلد ہی تمہارے پاس پہنچنے والا ہوں ۔والسلام علیکم و رحمةاللہ و برکاتہ!“
حضرت قیس جب امام ِ عالیٰ مقامؓ کا خط لے کر قادسیہ پہنچے تو حصین بن نمیر جو ابن ِ زیاد کے حکم سے پہلے ہی فوج کے ساتھ تاک بندی کیے ہوئے تھا اس نے قیس کو گرفتا ر کر کے ابن زیاد کے پاس بھیج دیا ۔ابن ِ زیاد نے کہا کہ تم اگر اپنی جان بچانا چاہتے ہو تو گورنر ہاﺅس کی چھت پر چڑھ کر حسین ابن ِ علیؓ کے خلاف تقریر کرو۔اور ان کو برا بھلا کہو۔حضرت قیس چھت پر چڑھ گئے اور صلوة والسلام کے بعد فرمایاکہ رسول ِ کریم ﷺ کے پیارے نواسے حضرت حسین بن ِ علی ؓ اس وقت خلق ِ خدا میں سب سے بہترین شخص ہیں ۔ میں ان ؓہی کا بھیجا ہوا تم لوگوں کے پاس آیا ہوں ۔ تمہارا فرض ہے کہ ان ؓکی مدد کے لیے قدم بڑھاﺅ اور انؓ کی آواز پر لبیک کہو۔پھر حضرت قیس نے ابن ِ زیاد اور اس کے باپ کو برا بھلا کہا اور حضرت علی ؓ کے لیے دعائے خیر کی۔ ابن ِ زیاد ان کی تقریر سن کر سخت غضبناک ہو گیا اور حکم دیا کہ اسے چھت کے اوپر سے نیچے گرا دو تاکہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں ۔بے رحموں نے حضرت قیس نیچے گرا دیا جس سے ان کی ہڈیاں چکنا چور ہو گئیں۔اور ایسے امام ِ عالی مقام ؓ کا ایک سچا محب آپ ؓ پر قربان ہو گیا۔