شہادت ِ مسلم بن عقیل ؓ کی خبر

قافلہ

حسینی کوفہ کے حالات سے بے خبر کوفہ کی طرف رواں دواں تھا ۔راستے میں ہر چراہ گاہ سے جس پر قافلے کا گزر ہوتا کچھ لوگ ہمراہ ہو جاتے۔جب قافلہ
حسینی ثعلبہ کے مقا م پر پہنچا تو حضرت امام ِ حسین ؓ کو حضرت مسلم بن عقیل ؓ اورہانی بن عروہ ؓکی شہادت کی خبر ملی۔
عبد اللہ بن سلیم الاسدی اور مذری بن مشغل الاسدی سے روایت ہے کہ جب ہم حج سے فارغ ہوئے تو ہمیں حضرت امام حسین ؓ کے ساتھ شامل ہونے سے زیادہ پسندیدہ کچھ نہ تھا۔ اس لیے ہم نے امام ِ عالی مقامؓ کوراستے میں جا لیا۔اسی دوران میں قافلے کا گزر بنی اسد کے ایک آدمی کے قریب سے ہوا تو آپ ؓ نے اس سے حالات دریافت کرنے کا ارادہ فرمایا پھر خیال ترک فرما دیا۔جب ہم اس شخص کے پاس سے گزرے اور کوفہ کے لوگوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا خدا کی قسم !جب میں کوفہ سے نکلا تو مسلم بن عقیل ؓ اور ہانی بن عروہ ؓقتل ہو چکے تھے۔ ان کو ٹانگوں سے پکڑ کر بازاروں میں گھسیٹا جا رہا تھا ۔عبد اللہ اور منذر کے بقول انہوں نے تمام حالات حضرت امام ِ حسینؓ کے گوش گزار کئے تو آپ ؓ نے کئی بار اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ عبد اللہ اور منذر کہتے ہیں کہ پھر ہم نے عرض کیا کہ ہم آپ ؓکو خداکا واسطہ دیتے ہیں کہ آپ ؓ اپنی اور اپنے گھر والوں کی فکر کریں اور یہاں سے واپس لوٹ جائیں کیونکہ کوفہ میں کوئی بھی حامی و مدد گار نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں اندیشہ یہ ہے کہ آپ ؓکو دعوت دینے والے ہی آپ ؓ کے دشمن ہو گئے ہیں۔یہ سن کر مسلم بن عقیل ؓ کے تینوں بھائی کھڑے ہو گئے اور جوش میں آ کر کہا کہ خدا کی قسم ہم واپس نہیں ہوں گے۔جب تک مسلم ؓکے خون کا بدلہ نہیں لے لیں گے یا پھر ہم بھی ان ؓکی طرح قتل نہیں ہو جائیں گے ۔مسلم بن عقیل ؓ کے بھائیوں کی بات سن کر حضر ت امام حسینؓ نے فرمایا ان لوگوں کے بعد زندہ رہنے میں کوئی لطف و بھلائی نہیں ہے۔ آپ ؓ کے بعض ساتھیوں نے یہ بھی کہا کہ خدا کی قسم آپ مسلم بن عقیل ؓ کی طرح نہیں ہیں۔ جوں ہی آپؓ کوفہ تشریف لے جائیں گے سب آپ ؓ کے ساتھ ہو جائیں گے۔(البدایہ و النہایہ
۔ الطبری)
حضرت امامِ حسین ؓ جب اپنے قافلے کے ساتھ زرود کے مقام پر پہنچے تو آپ ؓکو اپنے قاصد حضرت قیس ؓ کے قتل کی خبر ملی جسے آپ ؓ نے مکہ سے روانگی کے بعد مقام حاجر سے کوفہ والوں کے لیے خط دے کر روانہ کیا تھا ۔اس المناک خبر ملنے کے بعد آپ ؓ نے اپنے رفقاءکو جمع کر کے فرمایا کہ ہمارے شیعوں نے ہم کو چھوڑ دیا ہے ۔تم میں سے جو واپس جانا چاہے وہ بخوشی واپس چلا جائے۔ ہماری طرف سے اس پر کوئی پابندی یا الزام نہیں ۔آپ ؓ نے یہ اس لیے فرمایا کہ راستے میں دیہات کے بہت سے لوگ ا س خیال کے تحت آپ ؓ کے ساتھ ہو گئے تھے کہ شاید آپ بھی کسی ایسے شہر جا رہے ہیں جہاں کے رہنے والوں نے آپ ؓ کی اطاعت قبول کر لی ہے۔جب کہ ان لوگوں کو صحیح حالات سے آگاہ کئے بغیر لے جانا مناسب نہیں تھا۔اور آپ ؓ جانتے تھے کہ جب ان لوگوں کوصحیح حالات کا علم ہو گا تو آپ ؓ کے ہمراہ صرف وہی لوگ رہ جائیں گے جو آپ ؓ کے ساتھ جان کی بازی بھی لگانے پر تیار ہوں گے۔آپ ؓ کے اس ا علان کے بعد بہت سے وہ لوگ جو راستے میں شامل ہوئے تھے منتشر ہو گئے اورآپ ؓ کے ساتھ وہی لوگ رہ گئے جو مکہ سے چلے تھے۔