حرُکی آمد

امام ِ عالی مقام ؓ نے اپنا سفرجاری رکھا اور جب حسینی قافلہ کوہ ِ ذی حشم کے مقام پر پہنچ کر خیمہ زن ہوا تو حر بن یزید تیمی جو کہ حکومت ِ یزید کی طرف سے آپ ؓ کو گرفتا ر کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ وہ ایک ہزار مسلح سواروں کے ساتھ پہنچ گیا۔دوپہر کا وقت تھا دشمن کے گھوڑے اور آدمی پیاسے تھے ۔حضرت امامِ حسین ؓ نے سب کو پانی پلایا۔ غالباً اس ہمدردی کے سبب حر آپ ؓ سے کچھ کہنے کی جرات نہ کر سکا یہاں تک کہ ظہر کہ نماز کا وقت ہو گیا۔ اور اذان پڑھی گئی تو امام ِ عالی مقامؓ نے حمد و صلوٰة کے بعد حر اور اسکی فوج کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
میں بارگاہ ِ خدا وند اور تمہارے سامنے اپنی صفائی پیش کرتا ہوں کہ میں اس وقت تک تمہاری طرف نہیں آیا جب تک کہ تمہارے خطوط میری طرف نہیں آگئے کہ آپ ؓ ہماری طرف آئیں ۔ ہمارا کوئی امام نہیں ہے۔ شاید آپ ؓ کے سبب ہم لوگوں کو خدا تعالی ہدایت پر جمع فرما دے۔ اب اگر تم لوگ اپنی بات پر قائم ہو تو میں آ ہی گیا ہوں ۔ تم مجھ سے عہد کرو تاکہ مجھے اطمینان ہو جائے تو میں تمہارے شہر میں چلوں ۔ اور اگر میرا آنا پسند نہیں کرتے تو میں جہاں سے آیا ہوں وہاں واپس چلا جاﺅں گا
آپ ؓ کی تقریر کے بعد خاموشی رہی ۔کسی نے کوئی جواب نہ دیا ۔آپ ؓ نے حر سے پوچھا کہ تم ہمارے ساتھ نماز پڑھو گے یاالگ پڑھنا چاہو گے ؟ حر نے کہا آپ ؓ نماز پڑھائیں ہم آپ ؓ کے پیچھے نماز پڑھیں گے ۔اور ایسا ہوا کہ دونوں طرف کے لوگوں نے امامِ عالی مقام ؓ کے پیچھے نماز ادا کی۔اور نماز کے بعد آپ ؓ اپنے خیمے میں چلے گئے۔(طبری
جب عصر کا وقت ہوا تو آپ ؓ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ روانہ ہونے کے لیے تیار ہو جاﺅ۔ پھر خیمہ سے باہر تشریف لائے اور اس وقت بھی دونوں طرف کے لوگوں نے آپ ؓ کے پیچھے ہی نماز اداکی۔نماز کے بعد آپ ؓ نے مجمع کی طرف رخ کیا اور حمد و صلوٰة کے بعد فرمایا:
اے لوگو! اگر تم تقویٰ اختیار کرو گے اور حق پہچانو گے تو اللہ تعالی کی خوشنودی پاﺅ گے۔ جو تم پر ظلم و تشدد کے ساتھ حکومت کرتے ہیں اہل ِ بیت ان کے مقابلے میں خلافت کے زیادہ مستحق ہیں۔لیکن اگر تم لوگ ہم کو پسند نہیں کرتے ہو اور ہمارے حق کو نہیں پہچانتے ہو اور تمہاری رائے اس کے خلاف ہو گئی جو کہ تمہارے خطوط سے ظاہر ہے تو میں واپس چلا جاﺅں گا
حر نے کہا کہ بخدا ہمیں نہیں معلوم کہ وہ خطوط کیسے ہیں جن کا آپ ؓ ذکر فرما رہے ہیں۔اس پر آپ ؓ نے خطوط کے تھیلے کو منگوا کر سب کے سامنے الٹا دیا۔حر نے کہا کہ ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیںجنہوں نے آپ ؓکو یہ خطوط لکھے ہیں ۔ہم کو تو یہ حکم دیا گیا کہ جہاں بھی آپ ؓملیں ہم آپ ؓؓ کا ساتھ نہ چھوڑیں یہاںتک کہ ابن ِ زیاد کے پاس پہنچا دیں ۔آپ ؓ نے فرمایا کہ موت اس سے زیادہ قریب ہے۔آپ ؓ کا مطلب تھا کہ مجھے زندہ ابن ِ زیاد کے پاس گرفتار کر کے لے جانا ناممکن ہے۔اس کے بعد حضرت امامِ حسینؓ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا سوار ہو جاﺅ۔جب مرد اور عورتیں سوار ہو گئیںاور آپ ؓ نے واپس لوٹنے کا ارادہ فرمایا تو حر کے لشکر نے آپ ؓ کا راستہ روک لیا۔اس پر حضرت ا مام حسین ؓ نے حر سے کہا تیری ماں تجھے روئے تو کیا چاہتا ہے ؟ حر نے جواباًکہا خدا کی قسم! اگر آپ ؓ کے علاوہ کوئی اور عرب یہ بات کہتا تو میں اس کی ماں کو بھی ایسے ہی کہتا۔لیکن میں ہر حال میں آپ ؓ کی والدہ ماجدہؓ کا نام عزت و احترام سے لوں گا۔
امام ِ عالی مقام ؓ نے فرمایاتو اب کیا چاہتے ہو؟ حر نے کہا کہ میں آپ ؓ کو ابن ِ زیاد کے پاس لے جانا چاہتا ہوں۔آپ ؓ نے فرمایا خدا کی قسم! یہ نہیں ہو گا ۔حر نے کہا خدا کی قسم !میں بھی آپ ؓ کو نہیں چھوڑوں گااس طرح تکرار ہوتی رہی۔آخر میں حر نے کہا کہ مجھے آپ ؓ سے لڑنے کا حکم نہیں دیا گیا ۔مجھے تو صرف یہ حکم ہے کہ میں آپ ؓ کے ساتھ ساتھ رہوں۔ یہاں تک کہ آپ ؓ کوفہ پہنچ جائیں۔اور اگر آپ ؓ کوفہ جانے سے انکار کرتے ہیں تو جب تک ابن ِ زیاد کی رائے معلوم نہ کر لوں آپ ؓ ایسا راستہ اختیار کریں جو نہ کوفہ جاتا ہو اور نہ مدینہ کی طرف ۔آپ ؓ کو اس کی یہ بات بہتر لگی آپ ؓ نے قافلے کو کوچ کا حکم فرمایا۔اور غدیب اور قادسیہ جانے والے راستے سے بائیں جانب کو ہو لیے۔اور حر بن یزید آپ ؓ کے ساتھ چلتا رہا۔(الطبری ، البدایہ و النہایہ ، ابن اثیر)
چلتے چلتے جب آپ ؓ نینوا کے میدان میں پہنچے تو آپ ؓ نے کوفہ سے آئے ہوئے ایک سوار کو دیکھا ۔سب لوگ ٹھہر کر اس کاانتظار کرنے لگے ۔وہ آیا تو اس نے حضرت امام ِ حسین ؓاور انؓ کے ساتھیوں کو سلام کرنے کے بجائے حر کو سلام کیا اور ابن ِ زیاد کی طرف سے حر کو ایک خط دکھایا ۔ اس خط میں لکھا تھاکہ جس وقت میرا قاصد میرا خط لے کر تمہارے پاس پہنچے تو اسی وقت سے حسینؓ پر سختی کرو۔پس تم اس کو سوائے ایسے کھلے میدان کے جہاں نہ کوئی پناہ گاہ ہو نہ پانی ہو۔ انہیں کہیں اور نہ اترنے دو۔میں نے اپنے قاصد کو حکم دیا ہے کہ وہ تمہارے ساتھ ہی لگا رہے اور اس وقت تک تم سے الگ نہ ہو جب تک کہ میرے پاس یہ خبر نہ پہنچ جائے کہ تم نے میرے حکم پر عمل کیا ہے۔جب حر نے یہ خط پڑھا تو اس نے حضرت امام حسینؓ اور آپ ؓ کے رفقاءسے کہا یہ امیرا بن زیاد کا خط ہے جس میںاس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ ؓ کے ساتھ سختی کروں اور ایسی جگہ کے سوا جہاں نہ کوئی بستی ہو اور نہ پانی ،کسی اور جگہ نہ اترنے دوں۔آپ ؓ نے ساتھیوں سے کہا ہم نینوا، غاضریہ اور شیفتہ میں اتریں گے۔حر نے کہا میں ایسا نہیں کر سکتا کیوں کہ اس شخص ( قاصد) کو مجھ پر نگرانی کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔(ابن اثیر)