زمینِ کربلا پر

ابھی آپؓ تھوڑا سا چلے تھے کہ حر کے ساتھیوں نے آ کر روک دیا اور کہا کہ بس یہاں اتر جائیں۔ فرات یہاں سے دور نہیں ہے۔ آپ ؓ نے پوچھا اس جگہ کا نام کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ اس کا نام کربلا ہے۔اس لفظ کو سنتے ہی آپ ؓگھوڑے سے اتر پڑے اور فرمایا: جو مقامِ کرب و بلا ہے ۔ یہی ہمارے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔یہاں ہمارے مال و اسباب اتریں گے اور یہیں ہمارے ساتھی قتل کیے جائیں گے“۔61 ہجری محرم کی۲ تاریخ جمعرات کے دن امامِ عالی مقام ؑ اپنے اہل و عیال اور ساتھیوں سمیت یہیں خیمہ زن ہو گئے۔
کربلا پہنچتے ہی حضرت امامِ حسینؓ کو حضور نبی

اکرم ﷺ کی دی ہوئی بشارتیں آپؓ کی آنکھوں کے سامنے آ گئیں۔آپؓ کو بچپن کا وہ لمحہ یاد آ گیا جب حضرت امِ سلمہ ؓ کی روایت کے مطابق آپ ؓ ان ؓکے گھر میں اپنے بڑے بھائی حضرت حسن ؓ کے ساتھ آپ ﷺ کے سامنے کھیل رہے تھے کہ جبرائیلِ امین ؑ نازل ہوئے اور کہا اے محمد ﷺ بیشک آپ ﷺ کی امت میں سے ایک جماعت آپ ﷺ کے اس بیٹے حسینؓ کو آپ ﷺ کے بعد قتل کر دے گی ۔اور حضور ﷺکو حضرت امام حسین ؓکی جائے شہادت کی تھوڑی سی مٹی دی۔رسولِ اکرم ﷺ نے اس مٹی کو سونگھا اور فرمایا ”کہ اس میں رنج و بلا کی بوُ آ تی ہے“ اور حضرت محمد ﷺ نے امام ِ حسین ؓکو اپنے سینے سے چمٹا لیا اور رو دیے۔ پھر آ پﷺ نے فرمایا اے امِ سلمہؓ! جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرایہ بیٹا قتل ہو گیا۔
حضرت امِ سلمہؓ نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا ۔وہ ہر روز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں کہ جس دن یہ مٹی خون ہو جائے گی تو وہ دن عظیم دن ہو گا۔ یہی تو میدان تھا جس کی نسبت حضرت امامِ حسین ؑ کے محترم والد حضرت علی ؓ نے فرمایا تھا کہ یہ انؓ (حسین ؓ اور اس کے قافلے) کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے اور یہ اس کے خون کا مقام ہے۔ آلِ محمد ﷺ کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہو گا ۔جس پر زمین و آسمان روئیں گے ۔چونکہ میدانِ کربلا اور امامِ حسینؓکی شہادت کے بارے میں بشارتیں پہلے سے دی جا چکی تھیں۔ اس لیے امامِ عالی مقام ؓ نے اس مقام کو اپنے سفر کی انتہا سمجھ کر خیمے لگا دیے۔حر نے بھی آپ ؓ کے مقابلے میں خیمے نصب کر دیے۔
حر کے دل میں اگرچہ اہل ِ بیت کی عظمت تھی اور یہاں تک کہ اس نے اپنی نمازیں بھی حضرت امامِ حسین ؓ کے پیچھے ہی ادا کی تھیں۔مگر وہ ابنِ زیاد کے حکم سے مجبور تھا۔ وہ ابنِ زیاد کے ظالم اورسفاک مزاج سے واقف تھا۔اور اسے علم تھا کہ اس نے حضرت امامِ حسینؓ اور انؓ کے ساتھیوں کے ساتھ کسی قسم کی کوئی نرمی روا رکھی یا ابنِ زیاد کے حکم عدولی کی کوشش کی تو یہ بات ایک ہزار کے لشکر کے سامنے چھپی نہیں رہے گی۔ جب ابنِ زیاد کو اس کا علم ہو گا تو وہ ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ اور سخت سزا دے گا اس خوف کی وجہ سے حر ابنِ زیاد کے حکم پر برابر عمل کرتا رہا۔