عمر بن سعد کی آمد

ادھر قافلہ

حسینی کربلا کے میدان میں خیمہ زن تھا ۔دوسری طرف یزید ی حکومت ان نفوسِ قدسیہ پر قیامت برپا کرنے کی بھرپور تیاریوں میں مصروف تھی۔ 3 محر م الحرام کو عمر بن سعد چار ہزار سپاہیوں کے ساتھ مقابلے کے لیے کوفہ سے کربلا پہنچ گیا۔ ابنِ زیاد نے یہ لشکر”ویلم“ کے لیے تیار کیا تھا۔لیکن جب حضرت امامِ حسینؓ کا معاملہ پیش آ گیا تو اس نے عمر بن سعد کو حکم دیا کہ پہلے حسین ؓ کی طرف جاﺅ اور اس سے فارغ ہو کر ویلم کی طرف چلے جانا۔ عمر بن سعد نے حضرت امامِ حسین ؓ پر حملے سے انکار کر دیا۔ کیوں کہ عمر بن سعد ،حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ جو صحابی
رسولﷺ تھے اور عشرہ
مبشرہ میں سے ہیں،انؓکا بیٹا تھا ۔وہ نواسہ
رسول ﷺ حضرت امامِ حسین ؓ کی فضیلت سے خوب واقف تھا۔ اس لیے اس نے کہا کہ مجھے اس امر کے لیے نہ بھیجیں کیوں کہ میں یہ نہیں کر سکتا۔اور ساتھ ہی اس نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔اس پر ابن ِ زیاد نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں تمہارا استعفیٰ منظور کر لیتا ہوں ۔مگر ا س کے ساتھ ہی میں تمہیں دوسرے علاقوں کی ولایت سے معزول کر دوں گا۔جن پر میں نے تمہیں اپنا نائب بنایا ہے۔عمر بن سعد نے اس مسئلے پر غور کرنے کے لیے کچھ مہلت مانگی۔ اور پھر اس نے اس معاملے میں جس سے بھی مشورہ کیا اس نے اس کو حضرت امام ِ حسینؓ پر حملہ کرنے سے روکا۔ حتیٰ کہ اس کے بھانجے حمزہ بن مغیرہ نے کہا کہ خدا کے لیے امامِ حسینؓپرگز لشکر کشی نہ کرنا۔ یہ سراسر اللہ کی نافرمانی اور قطع ِ رحمی ہے۔ خدا کی قسم! اگر تمہیں سارے جہان کی سلطنت سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں تو یہ تمہارے لیے حضرت امامِ حسینؓ کا خون بہانے اور اپنی گردن پر لینے سے زیادہ آسان ہے۔ابن ِسعد نے کہا کہ انشاءاللہ میں ایسا ہی کروں گا۔مگر جب ابنِ زیاد نے اسے معزول کرنے کے علاوہ قتل کرنے کی دھمکی دی تو وہ چار ہزار کے لشکر کے ہمراہ حضرت امامِ حسین ؓ کی طرف روانہ ہو کر تین محرم کو کربلا پہنچ گیا اور پھر برابر پیچھے سے کمک پہنچتی رہی۔یہاں تک کہ ابن ِ سعد کے پاس بائیس ہزار کا لشکر جمع ہو گیا۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ حضرت امامِ حسین ؑ کے ساتھ کل72 آدمی تھے جن میں بیبیاں اور بچے بھی ہیں ۔اور پھر جنگ کے ارادے سے بھی نہیں آئے اس لیے لڑائی کا سامان بھی نہیں رکھتے تھے۔مگر اہلِ بیتِ نبوت کی شجاعت اور بہادری کا ابن ِ زیا د کے دل پر اتنا اثر تھا کہ ان کے مقابلے کے لیے بائیس ہزار کا لشکرِ جرار بھیج دیا اور دوگنی چوگنی دس گنا تک کیا سو گنی تعداد کو بھی کافی نہ سمجھا اور کوفہ کے تمام قابل ِ جنگ افراد کو کربلا میں بھیج دیا ۔