رفقا ءسے حضرت امام حسینؓ کا خطاب

ابن ِ سعد کے دستے کے واپس لوٹ جانے کے بعد حضرت امامِ حسین ؓ نے اپنے رفقاءکو جمع کیا۔ آپ ؓ کے فرزند سیدنا زین العابدین ؓ فرماتے ہیں کہ میں بیماری کی حالت میں بھی اپنے والدِ گرامی کے قریب جا بیٹھا تاکہ سنوں کہ وہ کیا فرماتے ہیں ۔اللہ تعالی کی حمد و ثنا اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ پر درود و سلام کے بعد آپ ؓ نے نہایت ہی فصیح و بلیغ الفاظ میں اپنے احباب سے فرمایا کہ:
” میں کسی کے ساتھیوں کو اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اور بہترین نہیں سمجھتا اور نہ کسی کے اہل ِ بیت کو اپنے اہل ِ بیت سے نیکو کار اور صلہ رحمی کرنے والا دیکھتا ہوں ۔اللہ تعالی تم سب کو میری طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے ۔میں یقین رکھتا ہوں کہ ہمارا کل کا دن دشمنوں سے مقابلے کا دن ہوگا۔میں تم سب کو خوشی سے اجازت دیتا ہوں کہ رات کی اس تاریکی میں چلے جاﺅ۔ میری طرف سے کوئی ملامت نہ ہو گی۔ایک ایک اونٹ لے لو اور تمہارا ایک ایک آدمی میرے اہل ِ بیت کے ایک ایک آدمی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے لے۔ اللہ تعالی تم سب کو جزائے خیر دے۔پھر تم سب اپنے اپنے شہروں اور دیہاتوں میں منتشرہو جاﺅ۔یہاں تک کہ اللہ تعالی یہ مصیبت ٹال دے۔بیشک یہ لوگ میرے ہی قتل کے طالب ہیں۔جب یہ مجھے قتل کریں گے تو پھر کسی اور کی ان کو کوئی طلب نہ ہو گی“
آپ ؓ کے بھائیوں ، بیٹوں اور بھتیجوں نے عرض کیا کہ آپ ؓ کے بعد ہماری زندگی بیکار ہے۔اللہ تعالی آپ ؓ کے بارے میں ایسا بُرا دن کبھی نہ دکھائے کہ آپ ؓ موجودنہ ہوں اور ہم ہوں۔آپ ؓ نے باقی بنی عقیل سے فرمایا”اے اولاد ِ عقیل! تمہارے لیے تمہارے بھائی مسلمؓکا خون بہا ہی کافی ہے۔تم واپس چلے جاﺅمیں تمہیں اجازت دیتا ہوں۔ “باہمت اور غیرت مند بھائیوں نے کہالوگ کیا کہیں گے ہم نے عشرت ِدنیاکی خاطر شیخ سردار اور اپنے بہترین بھائی کا ساتھ چھوڑ دیا۔نہ تیر پھینکا ،نہ نیزہ مارا ،نہ تلوار چلائی، فقط اس دنیا کی زندگی کی خاطر! ہرگز نہیں! خدا کی قسم!ہم ایسا نہیں کریں گے بلکہ اپنے جانوں ، مالوں اور اپنے اہل ِ عیال کو آپ ؓ پر قربان کر دیں گے۔ آپ ؓکی ہمراہی میں جنگ کریں گے اور جو انجام آپؓ کا ہوگا وہی ہمارا ہو گا۔آپ ؓ کے بعد زندہ رہنے کا کوئی جواز نہیں۔آپ ؓ کے دوسرے احباب نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا اور کسی نے بھی آپؓ کواس حالت میں چھوڑ کر جانے کی رضامندی ظاہر نہ کی اور کہا کہ خدا کی قسم! ہم آپ ؓکو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ہم آپ ؓ پر اپنی جان بھی قربان کر دیں گے۔ہم اپنی گردنوں ، پیشانیوں، ہاتھوں اور اپنے جسموں سے آپؓ کا دفاع کریں گے۔ جب ہم قتل ہو جائیں گے تو سمجھیں گے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔
سعید بن عبداللہ ؓ نے عرض کیا اگر مجھے یقین ہو جائے کہ ستر بار مارا جاﺅں گا اور ہر بارمیری خاک بھی اڑا دی جائے گی تو بھی آپؓ کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔دوسرے ساتھی مسلم بن عوسجہ نے کہا کہ باخدااگر میرے پاس ہتھیار نہ بھی ہوں تو پتھروں سے یزیدیوں کا مقابلہ کروں گا اور آپ ؓ پر فدا ہو جاﺅں گا ۔زہیر بن قیس نے عرض کیا کہ اگر مجھے ہزار بار بھی آرے سے چیرا جائے تو بھی آپؓ کا ساتھ نہ چھوڑوں گا ۔اگر آج ان درندوں کے سامنے آپؓ کو چھوڑکر چلے گئے تو کل آپ ؓ کے نانا ﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے اور کس منہ سے انﷺ سے شفاعت کی بھیک مانگیں گے۔
روایت میں آتا ہے کہ آپ ؓ بار بار چراغ بجھاتے اور ساتھیوں سے فرماتے کہ جس نے جانا ہے اندھیرے میں چلا جائے۔ اس میں شرمندگی والی کوئی بات نہیں ۔میں خود اجازت دے رہا ہوں تو اس پر ایک بوڑھے ساتھی نے کہا حسین ؓ آپ ؓ ہزار بار بھی چراغ بجھائیں تو بھی آپؓ کو چھوڑ کر نہ جائیں گے۔اپنے ساتھیوں اور اپنے اہل و عیال کے ان جذبات کو دیکھ کر حکم دیا کہ تمام رات خیمے قریب قریب کر دوحتیٰ کہ ان کی طنابیںایک دوسرے میں گڑھی ہوئی ہوں تاکہ دشمن ہم تک صرف ایک جانب سے آ سکے۔ہمارے دائیں بائیں اور پیچھے کی جانب خیمے ہوں ۔حضرت امامِ حسین ؓ کے حکم کو پورا کرنے کے بعد آپ ؓ کے رفقاءآپ ؓ کے ساتھ ساری رات نوافل پڑھتے رہے اورعاجزی و انکساری کے ساتھ مغفرت کی دعائیں مانگتے رہے۔