دسویں محرم کی صبح

دس محرم ، اکسٹھ ہجری کا سورج طلوع ہوا اور عاشورہ کی رات ختم ہوئی ۔امام ِ عالی مقام ؓ نے اہلِ بیت اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ فجر کی نماز ادا کی۔ عمر بن سعدنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ لی تو قتال کے لیے تیار ہو گیا۔حضرت امام ِ حسین ؓ اور ان کے ساتھی تین دن سے بھوکے پیاسے اور ایسے لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کے لیے بائیس ہزار کا تازہ دم لشکر موجود ہے۔حسینی فوج کے 72جان نثار 32 گھڑ سوار اور 40پیدل پر مشتمل تھے ۔آپ ؓ نے میمنہ پر زہیر بن قیس اور میسرہ پر حبیب ابن مظا ہر کو مقرر فرمایا۔علم اپنے بھائی حضرت عباس بن علی ؓ کے سپرد فرمایا اور عورتوںکے خیمے کی طرف پشت کر لی۔
حضرت امام ِ حسین ؓ کے حکم پر آپ ؓ کے ساتھیوں نے راتوں رات خیموں کے عقب میں خندق کھود لی تھی۔اور اسے لکڑیوں سے بھر دیا۔آپ ؓ کے حکم پر خندق میں ڈالی گئی لکڑیوں کو آگ لگا دی گئی تاکہ عقب میں سے کوئی خیموں میں داخل نہ ہو سکے ۔حضرت امام ِ حسین ؓ خود گھوڑے پر سوار ہوئے ۔قران ِ مجید منگوا کر سامنے رکھا اور دونوں ہا تھ اٹھا کر بارگا ہ ِ خدا وند میں یوں دعا کی :
”اے باری ِ تعالی !ہر مصیبت میں تو ہی میرا سہارا اور ہر تکلیف میں تو ہی میری امید ہے۔تمام حوادث میں تو ہی میرا مدد گار ہے اور ڈھارس ہے۔بہت سے غم ایسے ہوتے ہیں جن میں دل بیٹھ جاتا ہے اور ان غموں سے رہائی کی تدبیریں کم ہو جاتی ہیں ۔دوست اس میںساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور دشمن اس سے خوش ہوتے ہیں ۔لیکن میں نے ایسے تمام اوقات میں صرف تیری ہی طرف رجوع کیا ہے اور تجھ ہی سے اپنا درد ِ دل بیان کیا ہے۔تیرے سوا کسی اور سے کہنے کا دل نہیں چاہا۔تو ہی ہر نعمت کا ولی ، ہر بھلائی کا مالک اور ہر خواہش کا منتہی ہے“