اتمامِ حجت

حضرت امامِ حسین ؓ یزیدی لشکر کے قریب آئے اور بلند آواز کے ساتھ فرمایا:
”اے لوگو!میں تمہیں نصیحت کرنے والا ہوں اسے غور سے سنو“
اس پر سب لوگ خاموش ہو گئے۔آپ ؓ نے اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
اے لوگو!اگر تم میراعذر قبول کر لو ۔میرے ساتھ انصاف کرو تو یہ تمہارے لیے باعث ِ سعادت ہے اور تمہارے پاس مجھ سے زیادتی کرنے کا کوئی جواز بھی نہیں ہے۔اگر تم میرا عذر قبول نہیں کرتے (پھر آپ ؓ نے یہ آیات پڑھیں)”پس تم اور تمہارے شریک سب مل کر اپنی ایک بات ٹھہرا لو تاکہ تمہیں وہ بات تم میں سے کسی پر مخفی نہ رہے۔پھر میرے خلاف اپنے فیصلے پر عمل کر گزرواور مجھے کوئی مہلت نہ دو“(سورة یونس )
بیشک میرا مدد گار اللہ ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وہی صالحین کا مدد گارہوتا ہے۔
( سورة الاعراف 196:7 )
جب خیموں میں موجود آپ ؓ کی بہنوں اور بیٹیوں نے تقریر سنی تو ان کی رونے کی آوازیں بلند ہوئیں۔ اس پر آپ ؓ نے فرمایا خدا ابن ِ عباسؓ کی عمر دراز کرے انہوں نے کہا تھا کہ جب تک راہ ہموار نہ ہو جائے عورتوں کو ساتھ نہ لے جائیں بلکہ مکہ میں ہی چھوڑ دیں۔پھر آپ ؓ نے اپنے بھائی حضرت عباس بن علی ؓ کو بھیجا انہوں نے جا کر عورتوں کو خاموش کروایا۔عورتوں کے خاموش ہونے پر آپ ؓ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے فضل و عظمت ، حسب و نسب اعلی قدری کا ذکر کیا ۔آپ ؓ نے فرمایا:
”اے لوگو!اپنے گریبانوں میں جھانکو اور محاسبہ کرو کہ کیا میرے جیسے آدمی کا قتل درست ہے؟ میں تمہارے نبی ﷺ کی بیٹی کا فرزند ہوں ۔میرے سوا نبی ﷺ کا کوئی نواسہ تمام روئے زمین پر موجود نہیں ۔علی ؑ میرے والد ہیں ۔جعفر ذوالجناحینؓ میرے چچا ہیں ۔سیدا لشہداءحضرت امیر حمزہ ؓ میرے والدؓ کے چچا ہیں ۔رسول اللہ ﷺ نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا یہ دونوں جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ۔اگر تم میری بات کو سچ سمجھتے ہو اور وہ جو کہ حقیقت میں سچ ہے اس لیے کہ میں جھوٹ کبھی نہیں بولتا۔ اور اگر تم میری بات جھوٹی سمجھتے ہو تو ابھی بھی رسول اللہ ﷺ کے صحابی جابر بن عبد اللہ انصاریؓ، ابو سعید خدریؓ اور انس بن مالک ؓ وغیرہ موجود ہیں ان سے پوچھ لو۔کیا یہ حدیث تمہیں میرا خون بہانے سے روکنے کے لیے کافی نہیں ہے؟
شمر بدبخت نے آپؓ کی تقریر میں مداخلت کرتے ہوئے کچھ بدتمیزی کی تو حبیب ابن مظاہر نے اسے سخت جواب دیتے ہوئے کہا کہ اللہ نے تیرے دل پر مہر لگا دی ہے اس لیے تو نہیں سمجھ رہا کہ کہ حضرت امام حسین ؓ کیا فرما رہے ہیں ۔
حضرت امام حسین ؓ نے پھر فرمایا” اے لوگومیرا رستہ چھوڑ دو۔میں کسی محفوظ مقام کی طرف چلا جاتا ہوں “
انہوں نے کہا کہ آپؓ کو ابن زیاد کا حکم ماننے میں کیا امر مانع ہے۔
آپ ؓنے فرمایا”معاذ اللہ“ اور یہ آیت پڑھی:
(سورة المومن۔میں ہر اس متکبر سے جو یوم ِ حساب پر ایمان نہیں رکھتا ،اپنے اور تمہارے رب کی پناہ مانگتا ہوں ۔
پھر آپ ؓ نے اپنی سواری کو بٹھایا اور مخالفین سے فرمایا کہ بتاﺅ کیا تم مجھ سے کسی خون کا بدلہ لینا چاہتے ہو یا میں نے تمہارا مال کھایا ہے یا کسی کو زخمی کیا ہے۔جس کاتم مجھ سے بدلہ چکانے آئے ہو؟لیکن کسی نے جواب نہ دیا۔
اس کے بعد آپ ؓ نے پکار پکار کر فرمایا:
اے شیث بن ربعی ! اے حجاز بن الجبر!اے قیس بن عشث !اے زید بن حارث !کیا تم نے مجھے نہیں لکھا تھاکہ پھل پک چکے ہیںاور باغات سر سبز ہیں۔ آپ ؓ ہمارے پاس تشریف لائیں۔ آپ ؓ ایک مضبوط فوج کے پاس آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کسی کو خط نہیں لکھا۔ آپ ؓ نے فرمایا ”سبحان اللہ تم نے یقینا لکھے ہیں“
پھر آپ ؓ نے فرمایا اے لوگو !جب تم مجھ سے بیزار ہو تو میرا راستہ چھوڑ دو۔میں تم سے کہیں دور چلا جاتاہوں ۔اس پر قیس بن اشعث نے کہا کہ آپ ؓ اپنے قرابت دار یعنی ابن ِ زیاد کا حکم کیوں نہیں مان لیتے ؟وہ آپ ؓ کو کوئی گزند نہیں پہنچائے گا۔اور آپ ؓ سے وہی معاملہ کرے گا جو آپ ؓ چاہتے ہیں ۔آپ ؓ نے جواب دیا کہ تو اپنے بھائی کا بھائی ہی تو ہے (جب اہلِ کوفہ نے حضرت مسلم بن عقیل ؓ سے غداری کی تو انہوں نے ایک بڑھیا طوعہ کے گھر پناہ لی۔اس بڑھیا کے بیٹے بلال نے مخبری کر دی ۔یہ مخبری محمد بن اشعث جو کہ قیس بن اشعث کا بھائی تھا اس کی معرفت ہوئی تھی۔ابن ِ زیاد نے سپاہیوں کے ایک دستے کے ہمراہ محمد بن اشعث کو بھیجا تاکہ وہ مسلم بن عقیل ؓ کو گرفتار کریں ۔جب امام مسلمؓ نے مردانہ وار مقابلہ کیا اور انہوں نے دیکھا کہ آپؓ کو گرفتار کرنا آسان نہیں تو محمد بن اشعث نے امام مسلمؓکو امان دینے کا چکمہ دے کر گرفتار کرایا تھا۔حضرت امام ِ حسین ؓ کے ان الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح تیرے بھائی نے مسلم بن عقیلؓ کو دھوکے سے گرفتار کرایا تھا۔ تم اسی طرح مجھے بھی گرفتار کرانا چاہتے ہو)کیا تو چاہتا ہے کہ بنو ہاشم تم سے مسلم بن عقیل ؓکے علاوہ کچھ اور مقتولین کا بدلہ بھی طلب کریں ؟ نہیں خدا کی قسم! میں ذلت کے ساتھ اپنے آپ کو حوالے نہ کروں گا اور نہ غلاموں کی طرح اپنے ناکردہ جرم کا اعتراف کروں گا۔(البدایہ و النہایہ ، ابن اثیر)