حرُ کا شوقِ شہادت

جب عمر بن سعد جنگ شروع کرنے کے لیے آگے بڑھا تو حر بن یزید نے اس سے کہا کہ خدا تیرا بھلا کرے کیا تو واقعی ان سے جنگ کرے گا ؟ ابن ِ سعد نے کہا ہاں،خدا کی قسم اور ایسی جنگ کہ جس میں سروں کی بارش ہو گی اور ہاتھ قلم ہو کر زمین پر گریں گے ۔حر نے کہا ان کی پیش کی ہوئی باتوں میں سے کوئی بات بھی تم لوگوں کو منظور نہیں؟ ابن ِ سعد نے کہا خدا کی قسم اگر یہ معاملہ میرے اختیار میں ہوتا تو میں ضرور ایسا ہی کرتا لیکن کیا کروں تمہارا امیر نہیں مانتا ۔یہ سن کر حر وہاں سے ہٹ گیا۔اور نواسہ

رسول ﷺ سے جنگ کرنے کے تصور نے اس کے بدن پر کپکپی طاری کر دی اور چہرے پر پریشانی کے آثار ظاہر ہوئے تو اس کے قبیلے کا ایک شخص مہاجر بن اوس کہنے لگا۔حر یہ تمہاری کیا حالت ہے؟ تم پر اس قدر خوف و ہراس کیوں طاری ہے؟ مجھ سے تو جب بھی پوچھا جاتا کہ کوفہ میں سب سے زیادہ بہادر کون ہے تو میں تمہارے سوا کسی کا نام نہ لیتا۔اس وقت تمہاری عجیب حالت دیکھ رہا ہوں۔آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ حر نے کہا کہ یہ نواسہ
رسول ﷺ سے جنگ ہے، اپنی عاقبت سے لڑائی ہے۔میں اس وقت جنت اور دوزخ کے درمیان میں ہوں مگر میں جنت کو کسی چیز کے بدلے نہیں چھوڑوں گا ۔چاہے میرا جسم ٹکڑے ٹکڑے کر کے آگ میں جلا دیا جائے۔یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور امام ِ عالی مقام ؓ کی خدمت میں پہنچ گیا۔عرض کیا فرزند ِ رسول ﷺ میری جان آپ ؓ پر قربان !میں وہی گناہ گار ہوں جس نے آپؓ کو واپس جانے سے روکا ۔راستے میں آپ ؓ کے ساتھ ساتھ رہا۔اور اس جگہ ٹھہرنے پہ مجبور کیا ۔قسم ہے اس خدائے پاک کی جس کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں۔ میں یہ ہرگز نہیں سمجھتا تھا کہ آپ ؓ کی پیش کی ہوئی باتوں میں یہ کسی ایک کو بھی نہیں مانیں گے۔اور نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی۔واللہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ لوگ آپ ؓ کی بات نہیں قبول کریں گے تو میں ہرگز ان کا ساتھ نہ دیتا ۔اب میں اپنے کیے پر شرمندہ ہوں۔ خدائے تعالی کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور اپنی جان آپ ؓ کے قدموں پر قربان کرنے کے لیے حاضر ہوں ۔کیا اس طرح میری توبہ قبول ہو جائے گی؟ حضرت امام حسین ؓ نے فرمایا ہاں اللہ تمہاری توبہ قبول فرمائے گا اور تمہیں بخش دے گا۔مبارک ہو تم دنیا و آخرت میں حر (آزاد ) ہو۔گھوڑے سے اترو۔عرض کیا کہ آپؓ کی مدد کے لیے میرا گھوڑے پر رہنا اترنے سے بہتر ہے۔اب میں آخری وقت میں ہی شہید ہو کر گھوڑے سے اتروں گا۔ حضرت نے فرمایااچھا جو تمہارا جی چاہے وہی کرو ۔خدائے تعالی تم پر رحم فرمائے۔(طبری