کوفیوں سے حر کا خطاب

حضرت امام حسین ؓ سے خطا معاف کروانے کے بعد حر فوراََ میدان میں آ گیا ۔اور پہلے نرم الفاظ میں کوفیوں سے کہا :
”اے لوگو !حسین ؓ جو تین باتیں پیش کرتے ہیں ان میں سے کسی ایک کو تم کیوں نہیں منظور کر لیتے تاکہ خدائے تعالی تم کو ان کے ساتھ جنگ میں مبتلا ہونے سے بچا لے ۔کوفیوں نے کہا ہمارا سپہ سالار عمر بن سعد موجود ہے اس سے بات کرو۔ابن ِ سعد نے کہا اگر مجھے اختیار ہوتا تو میں ضرور منظور کر لیتا ۔یہ سن کر حر کو غصہ آ گیا اور کہا اے کوفہ والو!خدائے تعالی تم کو غرق کرے کہ تم نے نواسہ

رسول ﷺ کو بلایا اور جب وہ آ گئے تو تم نے انہیں دشمن کے حوالے کر دیا ۔تم کہتے تھے کہ ہم انؓ پر اپنی جان قربان کریں گے ۔اور اب قتل کرنے کے لیے انہی پر حملہ کر رہے ہو۔انؓکو تم نے گرفتا ر کر لیا۔ چاروں طرف سے انؓ کوگھیر لیا ۔تم نے ان پر خدا کی لمبی چوڑ ی زمین میں جدھر امان کا رستہ پائیں ادھر جانے سے روک دیا اور اب وہ تمہارے ہاتھ قیدی کی طرح ہو گئے ہیں ۔تم نے انؓکو اور انؓ کے اہل حرم کو انؓ کے بچوں کو اور انؓ کے ساتھیوں کو دریا ِ ئے فرات کے اس بہتے پانی سے روک دیا جسے یہودی ، نصرانی، مجوسی تک پیتے ہیں بلکہ کتے اور سور بھی اس میں لوٹتے ہیں۔ تم نے رسول ِ خدا ﷺ کے بعد ان کی اولاد کے ساتھ کیسا سلوک کیا ہے؟اگر آج تم اسی دم توبہ نہیں کرو گے اور اپنے ارادے سے باز نہیں آﺅ گے تو قیامت کے دن خدائے تعالی تمہیں بھی پیاس سے تڑپائے گا “
کوفیوں کے پاس چونکہ اس تقریر کا کوئی جواب نہ تھا اسی لیے وہ حر پر تیر برسانے لگے۔حر نے یہ دیکھا تو تقریر بند کر دی اور چونکہ ابھی باقاعدہ جنگ شروع نہیں ہوئی تھی اس لیے وہ واپس آ کر امام ِحسین ؓ کے پاس کھڑے ہو گئے۔(طبری)