جنگ کا آغاز

حر کے واپس آنے کے بعد عمر بن سعد فوج کو آگے بڑھایا اور اپنے غلام ذوید کو جو علم بردارِ لشکر تھا آواز دی کہ جھنڈا میرے قریب لاﺅ۔وہ اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ ابنِ سعد نے کمان میں تیر جوڑ کر حسینی لشکر کی طرف پھینکا ۔اور اپنی فوج کو پکار کر کہا کہ گواہ رہنا کہ سب سے پہلا تیر میں نے مارا ہے۔سپہ سالار کے ان الفاظ کو سن کر لشکر میں جوش و خروش پیدا ہو گےا تو وہ بھی تیر برسانے لگے۔اس طرح جنگ شروع ہو گئی اور اب دونوں طرف کے سپاہی نکل نکل کے اپنی بہادری کے جوہر دکھانے لگے۔
سب سے پہلے یسار اور سالم جو زیاد اور ابن زیاد کے آزاد کردہ غلام تھے کوفیوں کی طرف سے نکل کر میدان میں آئے اور مقابلے کے لیے بلایا۔امام عالی مقام ؓ کے دو جانثار ساتھی حبیب بن مظاہرؓ اور بریر بن حضیرؓ اٹھ کھڑے ہوئے مگر امام ِ عالی مقام ؓنے انہیں روک دیا ۔یہ دیکھ کر عبد اللہ بن عمیرکلبی جو اپنی بیوی امِ وہب کے ساتھ امامؓ کی مدد کے لیے آ گئے تھے کھڑے ہو گئے اور جنگ کی اجازت طلب کی ۔حضرت امامِ حسین ؓ نے سر پھیر ان پر نگاہ ڈالی کہ جوان قوی ہیکل ہے۔فرمایا کہ اگر تمہارا دل چاہتا ہے تو جاﺅ۔یہ تنہا دونوں کے مقابل ہو گئے انہوں نے پوچھا تم کون ہو؟ عبد اللہ ؓ نے اپنا نام و نسب بیان کیا ۔انہوں نے کہا ہم تمہیں نہیں جانتے۔ ہمارے مقابلے میںزہیر بن قیس، حبیب بن مظاہر یا بریر بن حضیرؓ کو آنا چاہیے تھا ۔یسار اس وقت سالم سے آگے بڑھا ہوا تھا۔ عبد اللہ نے کہا او فاحشہ کے بیٹے! تو مجھ سے لڑنے میں اپنی بے عزتی سمجھتا ہے؟یہ کہتے ہوئے یسار پر حملہ کیا اور تلوار کی ایسی ضرب لگی کہ وہ ایک ہی وار میں ٹھنڈا ہو گیا ۔سالم نے ایک دم جھپٹ کر حملہ کر دیا اور عبد اللہ نے اس کی تلوار کو بائیں ہاتھ پر روکا ۔انگلیاں کٹ گئیں۔مگر دائیں ہاتھ سے اس پر ایسا وار کیا کہ اسے بھی ڈھیر کر دیا۔اور جوش میں آ کر شعر پڑھنے لگا۔جس کامطلب یہ ہے کہ اگر مجھے نہیں پہچانتے ہو تو پہچان لو میں خاندانِ کلب کا ایک فرزند ہوں ۔میرے حسب و نسب کے لیے اتنا کافی ہے کہ قبیلہ

علیم میرا گھرانہ ہے۔میں بڑی قوت والا ہوں ۔اور مصیبت کے وقت پست ہمتی سے کام لینے والا نہیں ہوں ۔
عبد اللہ کی بیوی کو اپنے شوہر کی بہادری دیکھ کر جوش آ گیا اور خیمے کی چوب ہاتھ میں لی اور آگے بڑھ کے کہامیرے ماں باپ تم پر قربان ..نواسہ

رسو لﷺ کی طرف سے لڑتے جاﺅ۔وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور چاہا کہ انہیں خیمے میں پہنچا دیں ۔مگر وہ ماننے والی نہیں تھیں۔ عبد اللہ کے ایک ہاتھ میں تلوار تھی جس میں سے دشمن کا خون ٹپک رہا تھا ۔اور دوسرے ہاتھ کی انگلیاں کٹ گئیں تھیں جس سے لہو بہہ رہا تھا ۔پھر بھی انہوں نے پوری قوت سے اپنی بیوی کو واپس کرنا چاہا۔مگر جوش میں بھری ہوئی اس نئی نویلی دلہن نے جس کی شادی کو پندرہ دن یا سترہ دن ہوئے تھے اپنے ہاتھ عبد اللہ سے چھڑا لیے اور کہا میں تمہارا ساتھ ہرگز نہیں چھوڑوں گی۔تمہارے ساتھ میں جان دوں گی۔امام ِ عالی مقام ؓ نے آواز د ی خدائے تعالی تم دونوں کو اہل ِ بیت ِ رسالت کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔بی بی تم واپس آ جاﺅ کہ عورتوں پر قتال واجب نہیں۔امام ِ عالی مقام ؓ کا حکم سن کر وہ واپس آ گئیں ۔
وہب بپھرے ہوئے شیر کی طرح میدان میں اترا۔یزیدی فوج میں کھلبلی مچ گئی۔وہب کی ہیبت اس قدر تھی کہ یزیدی گھبرا کر بولے اے حسین ؓ!تو ہمارے مقابلے میں خود کیوں نہیں اترتا؟ حسین ؓ کے اس سچے غلام نے کہا سنو کوفیو! میں حسینؓ کا سچا غلام ہوں ۔میرے ہوتے ہوئے میرے آقا ؓتمھارے سامنے کیوں آئیں؟تم میرا مقابلہ نہیں کر سکتے تو ان ؓکاکیا کرو گے۔ایک یزیدی کے تین بیٹے تھے۔ وہ باری باری آتے گئے اور جہنم رسید ہوتے گئے۔پہلا آیا تو اس کو اٹھا کر زمین پر مارا اس کی ہڈیاں چکنا چور ہو گئیں ۔دوسرے کی کمر پہ ہاتھ رکھا اسے اٹھا کر پھینکا تو اس کی گردن توڑ دی۔تیسرا بھاگنے لگا اسے بھی پکڑ ا منہ کے بل دھکا دیا اور اس کے سارے دانت توڑ دیے۔وہب کی ماں یہ نظارہ دیکھ رہی تھی اور بیوی مصلے پر سجدے میں تھی۔آخر دشمن نے اجتماعی حملہ کیا ۔وہب کے جسم پر بہت زیادہ تیروں اور نیزوں کے زخم لگے ۔نڈھال ہو کر امام ِ عالی مقام ؓ کے قدموں میں آ گرے ا اور وہیں جان دے دی۔