امام عالی مقام ؓکے ساتھیوں کی شجاعت اور شہادت

کوفی لشکر سے یزید بن معقل نکلا ۔امام ِ عالی مقام ؓ کی طرف سے بریر بن حضیر ؓ نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ ڈھیر ہو گیا۔اتنے میں رضی بریر سے لپٹ گیا اور دونوں میں کشتی ہونے لگی ۔آخر بریر، رضی کو گرا کر اس کے سینے پر سوار ہو گئے۔رضی چلایا تو کعب نے دوڑ کر بریر کی پیٹھ میں نیزہ مارا اور وہ شہید ہو گئے۔
پھر امام ِ عالی مقام ؓ کی طرف سے حر نکلا ۔ان کے مقابلے کے لیے یزید بن سفیان آیا۔ حر نے ایک ہی وار میں اسے ڈھیر کر دیا۔ حر کے بعد نافع بن بلال آگے بڑھا ان کے مقابلے میں مزاحم بن حریث آیا۔نافع نے اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔کافی دیر ایسے ہی انداز سے لڑائی چلتی رہی کہ دونوں طرف سے ایک ایک جوان میدان میںآتے لیکن کوفیوں کی طرف سے جو بھی آتا بچ کر نہ جاتا۔
یہ حال دیکھ کر عمر بن حجاج چلایا اے بیوقوف کوفیو!تمہیںنہیں معلوم تم کن لوگوں سے لڑ رہے ہو۔یہ سب موت کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ان کے مقابلے میں ایک ایک کر کے ہرگز نہ جاﺅ۔عمر بن سعد نے اس کی رائے کو پسند کیا۔ پھر عمر بن حجاج نے فوج کے ایک دستہ کے ساتھ امام ِ عالی مقام ؓ کے میمنہ پر عام حملہ کر دیا۔کچھ دیر جنگ ہوئی اور جس میں حضرت امامِ حسین ؓ کے ایک جانثار ساتھی مسلم بن عوسجہ شہید ہو گئے۔
اس کے بعد شمر ایک بڑی جماعت کے ساتھ امام ِ عالی مقام ؓ پر حملہ آور ہوا۔اور اس حملے کے ساتھ ہی یزیدی لشکر چاروں طرف سے امام ؓ کے ساتھیوں پر ٹوٹ پڑا ۔بڑی زبردست جنگ ہوئی۔امام ؓ کے ساتھیوں کے کل چھتیس سوار تھے لیکن جدھر وہ رخ کرتے تھے کوفیوں کی صفوں کو درہم برہم کر دیتے تھے۔یہاں تک کہ یزیدی لشکر میں بھگڈر مچ گئی۔
ابن ِ سعد نے فورا پانچ سو تیر اندازوں کو بھیجا۔انہوں نے پہنچ کر حسینی لشکر پر تیروں کی بارش کر دی۔جس سے تمام گھوڑے زخمی ہو کر بیکار ہو گئے۔لیکن امام ؓ کے جانثار ہمت نہ ہارے گھوڑوں سے اتر پڑے ۔بڑی بہادری اور بے جگری کے ساتھ لڑتے رہے اور کوفیوں کے چھکے چھڑادیئے۔
ایوب بن مشرح کہتا تھا کہ خدا کی قسم !حر بن یزید کے گھوڑے کو میں نے تیر مارا جو اس کے حلق میں اتر گیا۔ اور وہ گرپڑا اور اس کی پیٹ پر سے حر اس طرح کود پرا جیسے شیر ۔پھر وہ تلوار کھینچ کر میدان میں آ گیا ۔اور ایک شعر پڑھا جس کا مطلب یہ تھا ،اگر تم نے میرے گھوڑے کو بیکار کر دیا تو کیا ہوا...میں حر...شیر ببر سے زیادہ بہادر اور شریف ہوں۔اور وہی ابن ِ مشرح یہ بھی کہتا تھا کہ حر کی طرح تلوار چلاتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا ۔(طبری)
جب ظہر کا اول وقت ہو گیا تو امام ِ عالی مقام ؓ نے فرمایا کہ کوفیوں سے کہوکہ نماز پڑھنے کی مہلت دیں۔اس پر بدبخت حصین بن نمیر نے کہا تمہاری نماز قبول نہیں ہو گی۔اس پر حبیب ا بن مظاہر ؓ نے جواب دیا او گدھے! تم سمجھتے ہو کہ فرزند ِ رسول ﷺ کی نماز قبول نہیں ہو گی اور تیری قبول ہو گی۔یہ سن کر ابن نمیر آگ بگولہ ہوا ۔اس نے حبیب ؓ پر حملہ کر دیا۔حبیب ؓ نے اپنے آپ کو بچا لیا اور جھپٹ کر تلوار سے اس کے گھوڑے کے منہ پر ایسا وار کیا کہ وہ آگے کے دونوں پاﺅں اٹھا کر کھڑا ہو گیا۔اور ابن نمیر اس کی پیٹھ سے نیچے گر گیا۔لیکن کوفیوں نے حبیبؓ کو گھیر لیا اور وہ دیر تک بہت بہادری سے لڑتے رہے۔ لیکن تنہا ایک بڑی جماعت سے مقابلہ کرتے جب تھکے تو ایک تمیمی نے آپ پر نیزے سے وار کیا ۔آپؓ گر گئے اور ابھی اٹھ ہی رہے تھے کہ ابنِ نمیر نے آپؓ پر تلوار ماری۔آپ ؓ پھر گر گئے ۔اور تمیمی نے گھوڑے سے اتر کر آپؓ کا سر کاٹ لیا۔حبیب ؓ کی شہادت سے امامِ عالی مقام ؓ کے دل پرزبردست اثر پڑا۔آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جانوں کو خدائے تعالی کے سپرد کیا۔
حر نے جب آپ ؓ کو رنجیدہ دیکھا تو رجز پڑھتے ہوئے میدان سے نکلا۔ساتھ زہیر بن قیس بھی تھے ۔دونوں نے لڑائی کی۔ ان میں سے ایک حملہ کرتا اور جب دشمنوں میں گھر جاتا تو دوسرا حملہ کر کے اسے بچاتا۔اس طرح دیر تک یہ دونوں شمشیر زنی کرتے رہے۔ آخر میں بہت بڑی فوج نے حر کو گھیر لیا اور وہ شہید ہو گئے۔اب زہیر تنہا رہ گئے اور دیر تک دشمنوں کا مقابلہ کیا اور پھر تلوار چلاتے ہوئے وہ بھی شہید ہو گئے۔(انا للہ وا ناالیہ راجعون)