فرزندانِ علی ؓکی شہادت

اولادِ حضرت عقیل ؓ کی شہادت کے بعدحضرت علیؓ مشکل کشا کے فرزندوں کی باری آئی۔حضرت محمد بن علی ؓ جواسماءبنتِ خصیمہ کے بطن سے تھے ۔امامِ عالی مقام ؓ سے اجازت لے کر میدان میں آئے ۔اپنی بہادری کے جوہر دکھائے اور بہت سے دشمنوں کو قتل کیا۔آخر قبیلہ بنی ابان کے ایک آدمی نے آپؓ کو زخمی کیا اور جب آپ ؓ زمین پر گر گئے تو اس نے آپؓ کا سر تن سے جدا کر دیا۔
اب حضرت عثمان بن علی ؓ ،حضرت عبد اللہ بن علیؓ اور حضرت جعفر بن علیؓ کھڑے ہوئے۔حضرت علی ؓ کے یہ تینوں فرزند ام البنین ؓکے بطن سے تھے۔امام ِ عالی مقام ؓ کے ایسے وفادار جانثار تھے کہ جب شمر عبید اللہ ابن ِ زیاد کا خط لے کر کربلا کی طرف روانہ ہو رہا تھا تو عبید اللہ بن ابی محل جو ام البنینؓ کا بھتیجا تھا۔اس نے ابن زیاد سے کہا کہ ہمارے خاندان کی ایک لڑکی کے فرزندامام ِ حسین ؓ کے ساتھ ہیں۔آپ ؓ ان کے لیے امان نامہ لکھ دیجیئے۔
ابن ِ زیاد نے ام ِالبنین کے چاروں فرزند حضرت عباس ؓ اور ان تینوں حضرات ؓ کے امان نامہ لے کر ان تینوں حضرات کے پاس پہنچا اور کہا کہ آپ ؓ کے ماموں زاد بھائی نے آپ ؓ کے لیئے ابن ِ زیاد سے امان نامہ لکھ کر بھیجا ہے۔ان چاروں غیرت والے بہادر جوانوں نے بیک زبان کہاہمارے بھائی کو ہماری طرف سے سلام کہہ دینا اور کہنا کہ ہم کو ابن ِ زیاد کی امان کی ضرورت نہیں۔خدا ئے تعالی کی امان ہمارے لیے کافی ہے۔شمرذی الجوشن، ام البنین کے خاندان کا ہی آدمی تھا۔ابنِ زیاد کے خط عمر وبن سعد تک پہنچانے کے بعد اس نے بھی جماعتِ حسینی کی طرف کھڑے ہو کر آواز دی کہ ہماری بہن کے بیٹے کہاں ہیں

؟انہوں نے کہا ہم سے کیا کہنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کے لیے امان ہے۔ان جوانوں نے جواب دیا۔خدا کی پھٹکار ہو تجھ پر اور تیری امان پر کہ تیری امان ہمارے لیے ہے اور فرزند ِ رسول ﷺ کے لیے نہیں ہے۔(طبری)
پھر حضرت عباس ؓ کے یہ تینوں بھائی ایک ایک کر کے میدان میں جاتے ہیں اور ہر ایک سینکڑوں کوفیوں پہ بھاری ہوتا ہے۔ حیدری طاقت سے یزیدی لشکروںکی صفوں کو درہم برہم کر دیتے ہیں۔اور آخر کار بہت سے یزیدیوں کو قتل اور زخمی کرنے بعد فرزند ِ رسول ﷺ پر اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔