شہادت ِ حضرت علی اکبر ؓ

جب اہل ِ بیت نبوت کے افراد کے علاوہ باقی افراد ایک ایک کر کے شہادت کا جام نوش کر گئے تو بنی ِ ہاشم اور خاندان ِ نبوت میں سے سب سے پہلے امام ِ عالی مقام ؓ کے سامنے آپ ؓ کے لخت ِ جگر، نور ِ نظر ،شبیہِ پیغمبر ﷺحضرت علی اکبرؓکھڑے ہوئے۔اور میدان ِ جنگ میں جانے کی اجازت طلب کی۔آپ ؓ نے ایک محبت بھری نگاہ اپنے فرزند پہ ڈا لی اور فرمایا:
بیٹے میں تمہیں کس بات کی اجازت دوں ۔کیا تیروں سے چھلنی ہونے اور تلواروں سے کٹنے کی اجازت دوں ۔کیا میں تمہیں خاک و خون میں غلطاں ہونے کی اجازت دوں ۔بیٹے تم نہ جاﺅ۔میں جاتا ہوں کہ یہ لوگ میرے خون کے پیاسے ہیں۔مجھے شہید کرنے کے بعد پھر یہ کسی کو کچھ نہیں کہیں گے۔علی اکبر ؓ نے عرض کیا بابا جان !میں آپ ؓ کے بعد زندہ رہنا نہیں چاہتا۔بہشتِ بریں میں نانا جان ﷺ کے پاس پہنچا دیں ۔
لاڈلا بیٹا جس کی کبھی کوئی خواہش ایسی نہ تھی جو پوری نہ کی ہو۔مگر آج تو یہی گردن کٹانے اور خاک و خون میں لوٹنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔اجازت دوں تو کس طرح؟اور نہ دوں تو کیسے روکوں ؟
جب بیٹے کا اصرار بڑھا تو امامِ عالی مقامؓ کو چار و ناچار اجازت دینی ہی پڑی۔حضرت علی اکبر ؓ میدانِ جنگ میں جانے کے لیے تیار ہو ئے تو امام ؓنے خود اپنے بیٹے کو گھوڑے پر سوار کیا۔ اسلحہ اپنے دستِ مبارک سے لگایافولادی ٹوپی اپنے ہاتھ سے سر پر رکھی۔کمر پر پٹکا باندھا۔ تلوارحمائل کی ۔اور نیزہ اپنے دستِ اقدس سے انؓکے ہاتھ میں دیا۔بیٹے نے اپنے بابا جان اور خیمے میں کھڑی ہوئی دکھی بیبیوں کو سلام کیا اور میدانِ جنگ کی طرف چل پڑے۔
18
سال کا یہ حسین جوان جس کا چہرہ

زیباآقائے دو عا لم ﷺ کے جمال ِ جہاں آرا کا خطبہ پڑھ رہا تھا۔اور جس کا روئے تاباں حبیبِ کبریا ﷺ کے جلو ئہ زیبا کی یاد دلا رہا تھامیدانِ کارزار میں پہنچ گیا۔اسد اللہی شیر نے دشمنوں کی صف کی طرف نظر کی۔ذوالفقار ِ حیدری چمکائی اور یہ رجز پڑھنا شروع کیا :
اے یزیدجان لو کہ میں علی اکبرؓ ہوں ۔میرے باپ کا نام حسین ؓ ہے جو فاتح خیبر علی حیدرؓ کے نورِنظر ہیں۔ اور کان کھول کر سن لو کہ ہم اہل ِ بیت ِ رسالت ہیں ۔اللہ کے پیارے رسول ﷺ سے ساری دنیا میں ہم سے زیادہ کوئی قریبی نہیں۔خدا کی قسم (ابنِ زیاد) ہم پر حکومت نہ کر سکے گا۔تم دیکھو گے کہ آج میں اپنے باپؓ کا کیسے دفاع کرتا ہوں ۔شہزادہ

عالی وقار ؓ نے جس وقت یہ رجز پڑھی تو لگا کہ میدانِ کربلا کا ایک ایک چپہ اور ریگستانِ کوفہ کا ایک ایک ذرہ کانپ گیا ۔پر یزیدی فوج کے دل پتھر سے بھی زیادہ سخت تھے ۔انہوں نے کوئی اثر نہ لیا۔
حضرت علی اکبر ؓ نے پھر فرمایا: اے ظالمو!اگر تم اولاد ِ رسول ﷺ کے خون کے پیاسے ہو تو جو شخص تم میں سے بہادر ہے اسے میدان میں بھیجو۔اور اسد اللہ دیکھنا ہو تو میرے مقابلے میں آﺅ۔مگر کس کی ہمت تھی کہ آگے بڑھتا اور کس کے دل میں تاب تھی کہ تنہا اس شیر کے آگے آتا۔ جب بار بار کی للکار کے باوجود کوئی مقابلے میں نہیں آیا تو آپ ؓ نے خود ہی آگے بڑھ کے دشمنوں پر حملہ کر دیا۔جس طرف کا رخ کیا یزیدی لشکر پھٹتا چلا گےا ۔اور ایک وار میں کئی کئی نوجوانوں کو گرا دیا۔کبھی لشکر کے میمنہ پر لپکے تو اسے منتشر کر دیا۔اور کبھی پلٹ کر فوج کے میسرہ پر جھپٹتے تو اس کی صفوں کو درہم برہم کر دیا۔اور کبھی قلب ِ لشکر میں غوطہ لگا کے شمشیر زنی کے وہ جوہر دکھائے کہ کشتوں کے پشتے لگا دئے۔ہر طرف شور برپا ہو گیا۔بڑے بڑے سورما ہمت ہار گئے۔اور بڑے بڑے بہادروں کے حوصلے پست ہو گئے۔ہاشمی شیر کا حملہ نہ تھا بلکہ قہر ِ الہٰی کا ایک عذاب ِعظیم تھا جو یزیدیوں پر نازل ہو گیا تھا۔اگرچہ جسم پر بیسیوں زخم لگے مگر لڑائی سے ہاتھ نہ روکا ۔
لڑتے لڑتے جب پیاس کی شدت نے نڈھال کر دیا تو پانی کا ایک گھونٹ بھر کر دوبارہ تازہ دم ہونے لیے آئے۔اور عرض کیا ابا جان! اگر پانی کا ایک گھونٹ مل جائے تو پھر تازہ دم ہو کر حملہ کروں ۔حضرت امام ِ حسین ؓ نے فرمایا کہ بیٹے جان !پانی تو میسر نہیں ہے لیکن میں اپنی سوکھی ہوئی زبان تیرے منہ میں ڈال سکتا ہوں۔حضرت علی اکبر ؓ نے امامِ حسین ؓ کی سوکھی ہوئی زبان چوسی اور پھر میدان میں جا پہنچے۔اور پکارا،ہے کوئی جو میرے سامنے آئے؟ عمر بن سعد نے طارق بن شیث پہلوان سے کہا بڑے شرم کی بات ہے کہ ایک نوجوان اکیلا میدان میں ہے اور اور تم ہزاروں کی تعداد میں ہو۔اس نے پہلی دفعہ للکارا اور جب تم میں سے کوئی نہ گیا تو وہ خود آگے بڑھ کے آیا اور حملہ کیا۔تمہاری صفوں کو درہم برہم کر دیا ۔بھوکا ہے پیاسا ہے اور دھوپ میں لڑتے لڑتے تھک گیا ہے۔اس حال میں بھی وہ تم کو للکار رہا ہے۔مگر تم میں سے کوئی اس کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا۔شرم کرو اپنے دعوی ٰشجاعت پر۔اگر غیرت ہے تو میدان میں پہنچ کر اس کا مقابلہ کر سر کاٹ کے لے آ۔تم نے یہ کام سر انجام دیا تو میں وعدہ کرتا ہوں عبد اللہ بن زیاد سے تمہیں موصل کی گورنری لے دوں گا۔طارق بدبخت گورنری کے لالچ میں فرزند ِ رسول ﷺ کا خون بہانے کو دوڑ پڑا۔اور سامنے پہنچتے ہی شبیہ ِ پیغمر ﷺ پر نیزے سے حملہ کر دیا۔مگر ہاشمی شیر نے کمال ِ ہنر مندی سے اس کے وار کو بیکار کرتے ہوئے اسے سینے پر نیزے سے ایسے وار کیا کہ نیزہ اس کی پیٹ سے نکل گیا۔اور وہ گھوڑے سے گر گےا۔شہزادے نے اس کو روند ڈالا۔
طارق کے بیٹے عمرو بن طارق نے جب اپنے باپ کو اس طرح قتل ہوتے دیکھا تو وہ غصے میں آگ بگولا ہو گےا۔اور دوڑ کر علی اکبر ؓ پر حملہ کر دیا۔شہزادے نے ایک ہی وار اس کا کام تمام کر دیا۔اب طارق کا دوسرا بیٹا طلحہ بن طارق اپنے باپ اور بھائی کا بدلہ لینے کے لیے شہزادے پر ٹوٹ پڑا۔مگر علی اکبر ؓ نے جلد ہی اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔شہزادے کی ہیبت سے پورا یزیدی لشکر تھرا گیا۔ابن ِ سعد نے ایک مشہور بہادر مصراع بن غالب کو مقابلے کے لیے بھیجا۔وہ نیزہ تان کر حملہ کرنا ہی چاہتا تھا کہ آپ ؓ نے اس کے نیزے کو تلوار سے قلم کر دیا۔اور پھر اس کے سر پر ایسی تلوار ماری کہ وہ ٹکڑے ہو کر زمین پر گر پڑا ۔
اب کسی کی ہمت نہ تھی کہ وہ ہاشمی شیر کے مقابلے میں آتا۔آخر ابنِ سعد نے محکم بن طفیل کو ہزار سواروں کے ساتھ ا یک بار حملہ کرنے کے لیے بھیجا۔ان بد بختوں نے آپؓ کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔اور حملہ کرنا شروع کر دیا۔آپؓ بھی برابر جوابی حملہ کرتے رہے۔مگر نیزہ اور تلواروں کی لگاتار ضربوں سے آپؓ کا تنِ نازنین زخموں سے چور ہو گےا۔ایک نیزہ آپ ؓ کے سینہِ اقدس میں پیوست ہو گےا تھا۔حضرت علی اکبر ؓ نے گھوڑے کی زین سے گرتے ہوئے آواز دی: ابا جان! مجھے سنبھالیں ۔حضرت امامِ حسین ؓ بے ساختہ دوڑ پڑے۔اپنے پیارے بیٹے کے پاس پہنچے تو علی اکبرؓ نے عجیب انداز میں باپ کو تکتے ہوئے عر ض کی: ابا جان! اگر آپؓ یہ نیزے کا پھل جسم سے نکال دیں تو میں ایک بار پھر میدان میں جانے کو تیار ہوں۔آپؓ کا بیٹا کثرت سے زخم کھائے ہونے کے باوجود ہمت ہارنے والا نہیں۔حضرت امامِ حسین ؓ نے اپنے جوان بیٹے جو کہ حسن و جمال اور رعنائی و زیبائی کا پیکر ہیں...کو اپنی گود میں لے لیا ۔دیکھا تونازوں پلا بیٹا سر سے پاﺅں تک زخموں سے چور ہے۔حضرت امامِ حسین ؓ نے ہمت کر کے نیزے کا پھل علی اکبر ؓ کے جسم سے نکالا تو خون کا فوارہ ابل پڑا اور لاڈلے بیٹے کی روح باپ کے سامنے ہی قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ (انا للہ وا نا الیہ راجعون)
اس واقعہ کے وقت امامِ عالی مقامؓ کی عمر شریف چھپن برس پانچ ماہ اور پانچ دن تھی۔اس وقت تک آپ ؓ کے سر اور ریش مبارک کا ایک بھی بال سفید نہ تھا۔اپنے ہاتھوں جوان بیٹے کی ایسی پر درد شہادت دیکھنا اس قدر الم ناک ثابت ہوا کہ میدانِ جنگ سے خیموں تک لاش اٹھا کر لانے کے اس مختصر وقفے میں آپ ؓ کے سر اور ریش مبارک کے بال سفید ہو چکے تھے۔