شہادت ِ حضرت قاسم ؓ

ہاشمی خاندان کے ایک مہکتے ہوئے پھول حضرت قاسم ؓ جو حضرت حسن ؓ کے فرزند ہیں۔ ان کی عمر انیس سال ہے۔اور ان کی شادی کے لیے رشتہ حضرت امامِ حسینؓ کی صاحب زادی حضرت بی بی سکینہؓ سے طے ہو چکا تھا۔وہ آپؓ کی خدمت میں کھڑے دست بدست راہِ حق میں اپنی جان قربان کرنے کی اجازت طلب کر رہے تھے۔امامِ حسین ؓ نے فرمایا:
بیٹاتم میرے بھائی حسنِ مجتٰبی ؓ کی یادگار ہو۔میں کس طرح تمہیں تیروں سے چھلنی ہونے اور تلواروں سے کٹنے کی اجازت دے دوں؟عرض کیا چچا جان مجھے دشمنوں سے لڑنے کی اجازت ضرور دیجئیے ۔اور مجھے اپنے اوپر قربان ہونے کی سعادت سے محروم نہ کیجئیے۔جب حضرت قاسم ؓ نے بہت اصرار کیا تو امام ِ پاک ؓ نے روتے ہوئے انہیں اپنے سینے سے لگایا اور رخصت کر دیا۔دشمن کا ایک سپاہی حمید بن مسلم یزیدی لشکر میں تھا ۔اس کا بیان ہے کہ جب حضرت قاسم ؓ میدان ِ جنگ میں آئے تو معلوم ہوا کہ جیسے چاند کا ایک ٹکڑا سامنے نمودار ہو گےا ۔آپ ؓ کے جسم پر زرہ بھی نہ تھی بلکہ صرف ایک پیراہن پہنے ہوئے شوق ِ شہادت کے جوش میں میدان میں آ گئے۔اور یزیدی لشکر سے فرمایا:
اے دین کے دشمنو!میں قاسم بن حسن ؓ بن علی ؓ ہوں ۔جسے میرے مقابلے میں بھیجنا ہے بھیجو
عمر بن سعد نے ملک شام کے ایک نامی گرامی پہلون ارزق سے کہا تم اس کے مقابلے میں جاﺅ۔اس نے کہا کہ میں ہرگز نہیں جا سکتاکہ بچے کے مقابلے میں جانا ہماری توہین ہے۔ابنِ سعد نے کہا کہ تم اسے بچہ نہ جانو۔یہ حسن ؓ کا بیٹا اور فاتح ِ خیبر کا پوتا ہے۔ا س کا مقابلہ آسان نہیںہے۔اس نے کہا کچھ بھی ہو میں ایسے بچے کے مقابلے میں نہیں جا سکتا۔البتہ میرے یہاں چار بیٹے موجود ہیںمیں ان میں سے ایک کو بھیج دیتا ہوں۔ابھی ایک منٹ میں اس کا سر کاٹ کر لے آئیں گے۔ارز ق کا بڑا بیٹا زہر میں بجھی ہوئی قیمتی تلوار چمکاتا ہوا اور بادل کی طرح غراتا ہوا میدان میں آیا اور پہنچتے ہی حضرت قاسم ؓ پر وار کیا۔آپ نے اس کے وار سے بچ کے ایسی تلوار ماری کہ اس کی تلوار کٹ گئی۔اب ارزق کا دوسرا بیٹا اپنے بھائی کو خاک و خون میں تڑپتا دیکھ کر غصے میں بھرا ہوا سامنے آیا۔آپ ؓ نے پہلے ہی وار میں نیزہ مار کر اسے بھی جہنم میں پہنچا دیا۔اب تیسرا بھائی غیض و غضب میں بھرا ہوا آگے بڑھا اور گالیاں بکنے لگا۔آپ ؓ نے فرمایاہم گالیوں کا جواب گالیوں سے نہیں دیتے کہ یہ اہل ِ نبوت کی شان کے خلاف ہے۔البتہ ہم تجھے تیرے بھائیوں کے پاس ابھی جہنم میں پہنچا دیتے ہیں۔یہ کہتے ہوئے آپ ؓ نے اسے بھی کھیرے کی طرح کاٹ کر دو ٹکڑے کر دیا۔اب ارزق کا چوتھا بیٹا شیر کی طرح غراتا ہوا حضرت قاسم ؓ پر حملہ آور ہوا۔آپؓ نے اس کے وار کو بیکار کر دیا۔اور اس کے کندھے پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ وہ منہ کے بل زمین پر آ گرا اور پھر وہ پوری طاقت کے ساتھ اٹھنا ہی چاہتا تھا کہ آپ ؓ نے اس کے سر کو جسم سے الگ کر دیا۔
جب ہاشمی بہادر نے صرف چند منٹوں میں ارزق کے چاروں بیٹوں کو موت کے گھاٹ اتار کے اس کے سارے غرور کو خاک میں ملا دیا۔تو وہ غصے سے کانپنے لگا اور جن کے مقابلے میںآنا وہ اپنی توہین سمجھتا تھا اب ان سے لڑنے کے لیے بیقرار ہو گیا۔ہاتھی کی طرح چنگھاڑا اور شیر کی طرح دھاڑتا ہوا میدان میں آکر حضرت قاسمؓ کو للکاراکہ لڑکے تیار ہو جاﺅ موت تمہارے سر پر آ گئی ہے۔آپ ؓ نے فرمایاارزق ہوش کا دعویٰ کر تو اوروں کے لیے دہشت کا پہاڑ ہو گا۔ابھی تو نے ہاشمی بہادروں کو نہیں دیکھا ہے۔ہماری رگوں میں شیرِ خدا کا خون ہے۔تو ہمارے نزدیک مچھر اور مکھی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ارزق یہ طعنہ سن کر اور بھی آگ بگولا ہو گیا۔اور حضرت قاسم ؓ پر نیزے سے حملہ کیا ۔آپ ؓ نے اس کے وار کو بیکار کر دیا۔پھر آپ ؓ نے بھی نیزے سے وار کیا جو خالی گیا۔اس طرح دونوں طرف سے کچھ دیر نیزہ بازی ہوئی۔اس کے بعد ارزق نے تلوار کھینچی تو آپ ؓ نے بھی تلوار نکال لی۔تو اس نے جب آپ ؓ کے ہاتھ میں اپنے بیٹے کی تلوار دیکھی تو کہا کہ یہ تلوار تو ہمارے لڑکے کی ہے تمہارے پاس کہاں سے آ گئی ؟ آپ ؓ نے ہنس کر فرمایا کہ تیرا بیٹا مجھے یاد گار کے طور پر یہ تلوار اس لیے دے گیا ہے تاکہ میں تجھے اسی سے موت کے گھاٹ اتار کر تیرے بیٹوں کے پاس پہنچا دوں۔یہ سن کر ارزق غصے سے بپھر گےا۔ اور حضرت قاسم ؓ پر حملہ کرنا ہی چاہتا تھا کہ آپ ؓ نے فرمایا ارزق ہم تو تجھے نہایت تجربہ کار بہادر سمجھتے تھے لیکن تو نہایت اناڑی ہے کہ گھوڑے کی زین کسنے کا بھی سلیقہ نہیں رکھتا۔آپ ؓ کے اس طرح فرمانے پر جب وہ جھک کر اپنے گھوڑے کی زین دیکھنے لگا تو اسی وقت آپ ؓ نے تلوار کا ایسا بھرپور وار کیا کہ وہ دو ٹکڑے ہو کر زمین پر آ گرا۔
حضرت قاسم ،ؓ ارزق کے گھوڑے پر سوار ہو گئے اور خیمے کی طرف آ کر حضرت امامِ حسین ؓ کی خدمت میں عرض کیا...پیاس ...پیاس... چچا جان! اگر تھوڑا سا پانی پینے کو مل جائے تو ابھی ہم ان سب کو موت کے گھاٹ اتاردیں۔امام ِ عالی مقام ؓ نے فرمایا :بیٹا تھوڑی دیر اور صبر کرو۔ عنقریب تم ناناجانﷺ کے مبارک ہاتھوں سے جامِ کوثر پی کر سیراب ہو جاﺅ گے۔اس کے بعد تمہیں کبھی پیاس نہیں ستائے گی۔
حضرت قاسم ؓ پھر میدان کی طرف پلٹ پڑے۔ابن سعد نے کہا کہ اس نوجوان نے ہمارے کئی نامی گرامی پہلوانوں کو قتل کر دیا لہذا اب اس کے مقابلے میں تنہا نہ جاﺅ۔اسے چاروں طرف سے گھیر کے قتل کر دو۔دشمنوں نے آپؓ کو چاروں طرف سے گھیر لیا ۔اور گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی۔آپؓ کے جسم پر ستائیس زخم آئے۔آخر میں شیث بن سعد نے آپ ؓ کے سینے پر ایسا نیزہ مارا کہ آپؓ گھوڑے سے گر پڑے اور پکارا کہ اے چچا جان !میری خبر گیری فرمائیے۔امامؓ اپنے بھتیجے کی درد ناک آواز سن کر دوڑ پڑے۔دیکھا کہ جسم ِ نازنین زخموں سے چور ہے ۔آپ ؓ نے انؓ کا سراپنی گود میں رکھ لیا۔اور چہرئہ انور سے گر د و غبار صاف کرنے لگے۔اتنے میں حضرت قاسم ؓ نے آنکھیں کھول دیں ۔اور اپنا سر امام ؓ کی گود میں پا کر مسکرائے اور پھر آپ ؓ کی روح پرواز کر گئی۔
راوی کہتا ہے کہ جب امام ِ عالی مقام ؓ نے حضرت قاسمؓ کو اٹھاکر لے جا رہے تھے تو آپ ؓ کے پاﺅں زمین سے رگڑ رہے تھے۔اور مجھے ابھی بھی ان کے پاﺅں زمین پر گھسٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔میں نے اس لڑکے کے بارے میں پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ یہ قاسم بن حسن بن علی ؓ ہیں۔