عون ؓو محمدؓ کی شہادت

حضرت بی بی زینب ؓ نے امام ِ عالی مقام ؓ سے درخواست کی کہ میرے دونوں بیٹوں کو بھی میدان میں جانے کی اجازت دیں ۔حضرت امام حسین ؓ نے انکار کر دیاکیونکہ ان دونوں کی عمر ابھی نو ، د س سال ہی تھی۔پھر حضرت بی بی زینب ؓ اور دونوں شہزادوں نے منت کی اور اجازت کی درخواست کی کہ ہمیں اجازت دیں۔امام ِ عالی مقام ؓ نے فرمایا کہ اپنے ارادے سے باز آجاﺅ۔اس پر عونؓ و محمد ؓ نے التجا کی کہ ہماری کم عمری پر نہ جائیے۔ہماری رگوں میں بھی شیرِخدا کا خون ہے۔ہم بھی میدان ِ جنگ میں لڑ کردشمن کا مقابلہ کریں گے۔حضرت امام ِ حسین ؓ نے بچوں کی دلیرانہ گفتگو سن کر حضرت بی بی زینب ؓ سے فرمایامیری طرف سے اجازت ہے۔حضرت بی بی زینب ؓ خوش ہو گئیں۔اور انہوں نے اپنے دونوں بچوں کو نصیحت کی کہ ےاد رکھوکہ اگر تم سے پوچھا جائے کہ تم کون ہو تو یہ ہرگز مت کہنا کہ تم زینبؓ کے بیٹے ہو۔ کہنا کہ ہم حضرت امام حسین ؓ کے غلام ہیں ۔اور دونوں کو میدانِ جنگ میں روانہ کر دیا۔
جب عمر بن سعد نے دونوں کو دیکھا تو دیکھتے ہی پکارا کہ میں یہ تو جانتا ہوں کہ تم زینب ؓ کے بیٹے اور امام حسین ؓ کے بھتیجے ہو۔مگر مجھے تمہاری بھولی صورت دیکھ کے رحم آ گیا ہے۔ادھر آﺅ میری طرف آ جاﺅ۔یہاں تمہیں پانی بھی اور کھانا بھی ملے گا اور انعام بھی۔عمر بن سعد کی اس بات سے عونؓ و محمدؓتڑپ اٹھے اور جواب دیاکہ او ظالم !ہم نہ زینبؓ کے بیٹے ہیں نہ حسین ؓ کے بھتیجے۔ہم تو امام حسین ؑ کے غلام ہیں۔اور ہم تمہارے لالچ میں آنے والے نہیں۔ہم اللہ کی راہ میں لڑنے کے لیے آئے ہیں۔اور پھر عونؓ و محمدؓ کے نعروں سے زمین ِکربلا ہل گئی۔عونؓ نے دائیں طرف سے اور محمدؓ نے بائیں طرف سے حملہ کیا ۔ان کی تلواریں چمکیںاور نیزے ہوا لہرائے اور دشمن حیران رہ گئے کہ ان دو بچوں نے میدان ِ جنگ میں بہادری کے ایسے جوہر دکھائے جو اپنی مثال آپ ہیں۔عمر بن سعد نے کمسن بچوں کو جب ایسے بہادری سے جنگ کرتے دیکھا تو چلا اٹھاکہ یہ نو دس سال کے بچے جو تین دن کے بھوکے پیاسے ہیں انہیں تم لوگ ابھی تک قتل نہیں کر سکے۔تو سب نے مل کر تیروں اور تلواروں کی بوچھاڑ کر دی۔چھوٹے بھائی کے سینے میں تیرلگا تو بڑا بھائی جھک کر نکالنے لگا تو دشمن نے تلوار سے وار کر دیا اور دونوں بھائی اکٹھے ہی جام ِ شہادت نوش کر گئے۔