شہادت ِ حضرت ِ عباس علمدارؓ

ٍ اب وہ وقت آ گیا کہ امام ِ عالی مقام ؓ کے علمدار حضرت عباس بن علی ؓ ،امام پاکؓ سے میدان جنگ میں جانے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔اور عرض کرتے ہیں کہ:
بھائی جان! پیارے بھائی بھانجے تو بھوکے پیاسے جامِ شہادت نوش کر گئے مگر اب ننھے ننھے شیر خوار بچوں کا پیاس سے تڑپنا اور ان کا بلکنا مجھ سے نہیں دیکھا جاتا۔مجھے اجازت دیجیے کہ میں جا کر فرات سے ایک مشکیزہ پانی لے آﺅں اور ان پیاسوں کو پلاﺅں ۔
امامِ عالی مقامؓ کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں فرمایا:بھائی عباس تم ہی میرے علمدار ہو۔ اگر تم پانی لانے میں شہید ہو گئے تو میرا علم کون اٹھائے گا ؟اور میرے زخم ِ دل پر مرہم کون لگائے گا۔ حضرت عباس ؓ نے عرض کیا ،میری جان آپ ؓ پر قربان ،مجھے پانی لانے کی اجازت ضرور دیجیے کہ اب ننھے بچوں کی تکلیف میری قوت ِ برداشت سے باہر ہے۔بس اب آخری تمنا یہی ہے کہ ساقی

کوثر کے جگر پاروں کو چند گھونٹ پانی پلا کر میں بھی آپ ؓ کے لیے قربان ہو کر اپنے بھائیوں کے پاس پہنچ جاﺅں ۔حضرت امام حسین ؓ نے جب حضرت عباس ؓ کی طرف سے بہت اصرار دیکھا تو انہیںسینے سے لگایا اور اشک بار آنکھوں سے انہیں اجازت دے دی۔
وہ اک مشکیزہ کندھے پہ لٹکاکر گھوڑے پر سوار ہوئے اور فرات کی طرف روانہ ہوئے۔ یزیدی فوج نے جب حضرت عباسؓ کو فرات کی طرف جاتے دیکھا تو روک دیا۔آپ ؓ نے فرمایا اے کوفیو!خدائے تعالیٰ سے ڈرواور رسولِ پاک ﷺ سے شرماﺅ۔افسوس صد افسوس کہ تم لوگوں نے بے شمار خطوط بھیج کر نواسہ

رسول ﷺ کو بلایا۔ اور جب وہ سفر کی مشقتیں اٹھا کر تمہاری زمین پر جلوہ افروز ہوئے تو انؓ کے ساتھ بے وفائی کی۔دشمنوں سے مل کر ان ؓکے تمام رفقاءاور عزیز و اقارب کو شہید کر دیا۔چھوٹے چھوٹے بچوں کو ایک ایک بوند پانی کے لیے ترسا رہے ہو۔سوچو قیامت کے دن ان ؓکے نانا جان نبی
محترم نور ِ مجسم ﷺ کو کیا منہ دکھاﺅ گے؟کوفیو نے جواب دیا کہ اگر ساری دنیا بھی پانی ہو جائے تب بھی ہم تمہیں پانی کا ایک قطرہ نہیں لینے دیں گے۔جب تک حسین ؓیزید کی بیعت نہ کر لیں۔ظالموں کا یہ جواب سن آپؓ کو جلال آ گیا۔فرمایا:
حسین ؓ سر کٹا سکتے ہیں پر باطل کے سامنے جھک نہیں سکتے
پھر حضرت عباس ؓ شیر کی طرح ان پر جھپٹ پڑے۔اور اپنی تلوار دھواں دھار چلانے لگے۔یہاں تک کہ بہت سے دشمنوں کو موت کی نیند سلاتے ہوئے فرات تک پہنچ گئے۔پانی کے کنارے والی فوج نے جب آپؓ کو دیکھا تو آہنی دیوار بن گئے۔مگرشیرِخدا کے شیر مرتے کٹتے اور دشمنوں کی صفوں کو چیرتے پھاڑتے ہوئے آگے بڑھے اور گھوڑے کو فرات میں داخل کر دیا۔مشکیزہ بھرا اور ایک چلو ہاتھ میں لے کر پینا چاہا کہ ننھے بچوں کا پیاس سے بلکنا اور تڑپنا یاد آ گیا۔تو آپؓ کی عقیدت ِ ایمانی نے یہ گوارہ نہ کیا کہ ساقی

کوثر کے دُلارے اور علیؓ و فاطمہ ؓ کے جگر پارے تو پیاس میں تڑپیں اور ہم سیراب ہو جائیں۔آپ ؓ نے چلُو کا پانی گرا کر پانی کا بھرا مشکیزہ بائیں کندھے پر لٹکایا اور چل پڑے۔چاروں طرف سے شور ہوا کہ راستہ روک لو۔مشکیزہ چھین لو پانی بہا دو کہ اگر حسین ؓ کے خیمے تک پانی پہنچ گیا تو ہمارا ایک بھی سپاہی نہیں بچے گا۔سب کی عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو جائیں گے۔
حضرت عباس ؓ اس کوشش میں رہے کہ کسی طرح اہل ِ بیت ِ نبوت تک یہ پانی پہنچ جائے۔جب دشمنوں نے آپؓ کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ ؓنے بپھرے ہوئے شیر کی طرح حملہ کرنا شروع کر دیا۔لاشوں پر لاشیں گرنے لگیں۔اور خون کی نالی بہنے لگی۔اورشیرِ خدا کے شیر نے ثابت کر دیا کہ میرے بازوﺅں میں قوت ِ حیدری اور رگوں میں خونِ علی ؓ ہے۔آپ ؓ برابر دشمنوں کو مارتے کاٹتے اور چیرتے پھاڑتے ہوئے خیمہ

حسینیؓ کی طرف بڑھتے چلے جا رہے تھے کہ ایک بدبخت جس کا نام زرارہ تھا نے پیچھے سے دھوکہ دے کر ایسی تلوار چلائی کہ ہاتھ کندھے سے کٹ کر الگ ہو گیا۔آپ ؓ نے فورامشکیزہ داہنے کندھے پر لٹکا لیا ۔اور اسی ہاتھ سے تلوارِ علیؓ چلاتے رہے کہ پھر اچانک نوفل بن ارزق خبیث نے دایاں بازو بھی کاٹ دیا۔آپ ؓ نے مشکیزہ دانتوں سے پکڑ لیا۔مگر مشکیزہ کا خیمہ
حسینیؓ تک پہنچنا شاید اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں تھا۔ایک بدبخت کا تیر مشکیزے کے اندر ایسے لگا کہ پار ہو گیا۔اور اس کا سارا پانی بہہ گیا۔پھر ظالموں نے چاروں طرف سے آپؓ کو گھیر کر زخموں سے چور چور کردیا۔یہاں تک کہ آپ ؓ گھوڑے کی زین سے زمین پر آ گئے۔اور فرمایا:اے میرے بھائی جان !میری خبر گیری فرمائیں۔امامِ عالی مقام ؓ دوڑ کر تشریف لائے دیکھا تو عباس ؓ خون میں نہائے ہو ئے ہیں۔اور عنقریب جام شہادت نوش فرمانے والے ہیں۔شدت ِ غم سے امامِ عالی مقامؓ کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوئے کہ اب میری کمر ٹوٹ گئی۔پھر عباس ؓ کی لاش خیمے کی طرف اٹھا کر لا رہے تھے کہ انؓکی روح قفس ِ عنصری سے پرواز کر گئی۔
( انا للہ وا نا الیہ راجعون)