بی بی صغریٰؓ کا قاصد

اونٹنی پرسوار ایک شخص مدینہ منورہ کی گلیوں سے گزرا تو ایک مکان کے دروازے پر ایک بچی بیٹھی رو رہی تھی۔سوار نے ہمدردی سے پوچھا کہ بی بی تم کون ہو؟ بچی بولی میرا نام صغریٰ ہے۔میں امام حسین ؓ کی بیٹی ہوں ۔وہ مجھے چھوڑ کر کوفہ چلے گئے ہیں۔میں بیمار ہوں اگر تم کوفہ جا رہے ہو تو مجھے بھی ساتھ لے چلو۔میں تنگ نہیں کروں گی۔مجھے بیمار سمجھ کر نہ چھوڑنا۔میں ساتھ چلنے سے ٹھیک ہو جاﺅں گی۔سوار نے کہا میں تمہیں ضرور لے چلتا مگر میرے اونٹ پر کجاوہ نہیں ہے۔پر میں تمہارا خط تمہارے باپ تک ضرور پہنچا دوں گا۔اور وہ صغریٰ کا خط لے کر روانہ ہو گیا۔حالانکہ وہ مدینہ اپنے بچوں کی دوائی لینے آیا تھا ۔مگر اس معصوم بچی کی محبت اور اپنی عا قبت سنوارنے کے شوق میں وہ کوفہ کی طرف چل پڑا۔اللہ کے حکم سے اس کا سفر اتنا جلدی طے ہوا کہ وہ خود حیران رہ گیا۔وہ جلدی ہی امامِ عالی مقام ؓ کے قافلے تک مقام ِ کربلا پہنچ گیا۔اوربتایا کہ میں آپؓ کی بیٹی صغریٰ کا قاصد ہوں۔امامِ عالی مقام ؓ نے اسے بہت دعا دی اور فرمایا میں اس احسان کا بدلہ قیامت میں ادا کروں گا۔قاصد نے اپنی جیب سے صغریٰؓ کا خط نکال کر حضرت امامِ حسین ؓ کے حوالے کیا۔اور واپسی کے لیے روانہ ہو گیا۔خط میں لکھا تھا:
ابا جان !آپ ؓ کی بچھڑی ہوئی بیٹی سلام عرض کرتی ہے۔ابا جان آپ ؓ تو کہہ گئے تھے کہ ایک ماہ بعد علی اکبرؓ آئے گا اور مجھے لے جائے گا۔مگر اتنا عرصہ گزر گیا۔خط میں ایسی ہی باتیں تھیں کہ میں ساری ساری رات سوتی نہیں ہوں۔اور سو جاﺅں تو بُرے بُرے خواب آتے ہیں۔آپ ؓ کے انتظار میں صبح سے شام تک دروازے پر راہ تکتی ہوں۔ہر آنے جانے والے سے آپؓ کا پتہ پوچھتی ہوں۔اب میں اچھی ہو گئی ہوں۔آپ ؓ مجھے اپنی پاس بلا لو۔علی اکبر بھائی کو بھیجواور ایسی ہی باتوں کے ساتھ لکھا تھا کہ میں نے علی اصغر ؓ کے لیے کپڑے سیئے ہیں۔اور کھلونے لیے ہیں جب آﺅں گی تو لاﺅں گی۔
امامِ عالی مقام ؓ نے خود بھی خط پڑھا اور سب کو پڑھ کر سنایا۔جس سے سب بے اختیار رونے لگے۔کچھ روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ امامِ عالی مقامؓ کو خط دے کر اور کربلا کے حالات دیکھ کر وہ قاصد بھی بہت رنجیدہ ہو گیا۔اور آپ ؓ نے قاصد سے فرمایا کہ اکبر،ؓ اس کا بھائی اب نہیں رہا ۔اگر تیرے اندر حوصلہ ہے تو اس ؓکی اور قاسمؓ و عباسؓ کی بے گور و کفن لاش کو بھی اور ننھے اصغرؓ کی لاش بھی دیکھ لو۔اس کو کہنا” بیٹی! ایسا صبر کر جو قابل رشکِ ،قابلِ شنید اور قابلِ تقلید ہو۔اب ہماری ملاقات قیامت کے دن ہی ہو گی اور اب اکبرؓ و اصغرؓ کو مدینہ آنے کا پیغام نہ بھیجنا۔ وہ مدینے والے کی گود میں سو رہے ہیں“