شہادت ِ امام عالی مقام ؑ

اب جگر پارئہ رسول ﷺ ...
شہزادئہ بتولؓ ...علی ؓ کے نورالعینؓ....
مومنوں کے دلوں کے چینؓ ....
حسینی نوجوانوں کے سردارؓ ...مجاہدوں کے قافلہ سالارؓ...ابنِ حیدر ِ کرارؓ....
شہنشاہ ِ کربلاؓ ....پیکر ِ صبر و رضاؓ...حضرت امام ِ حسینؓ کی شہادت کا وقت آ گیا۔
جب آپ ؓ نے میدان ِ جنگ میں جانے کا ارادہ فرمایا تو حضرت زین العابدینؓ اپنی بیماری اور نقاہت اور کمزوری کے باوجود نیزہ لیے ہوئے حضرت امامِ حسینؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عرض کیا ابا جان !پہلے مجھے میدانِ کربلا میں جانے کی اجازت دیجیے۔میرے ہوتے ہوئے آپؓ شہید ہو جائیں یہ نہیں ہو سکتا۔امامِ عالی مقام ؓ نے اپنے نور ِ نظر کو اپنی آغوش ِ محبت میں لیا اور پیار کیا ۔فرمایا:
بیٹامیں تمہیں کیسے اجازت دے دوں ؟ علی اکبرؓ بھی شہید ہو گےا ۔قاسمؓ بھی دنیا سے چلا گےا۔ اور تمام عزیز و اقارب جو ہمراہ تھے سب راہ ِ حق میں نثار ہو چکے ہیں۔میں اگر تمہیں اجازت دے دوں خواتین ِ اہل ِ بیت کا کوئی محرم نہیں رہ جائے گا۔ان بےکسان غریب الوطن کو مدینے کون پہنچائے گا؟تمہاری ماﺅں بہنوں کی نگہداشت اور خبر گیری کون کرے گا؟میرے پیارے بیٹے !تمہیں زندہ رہنا ہے ۔تمہیں شہید نہیں ہونا۔ورنہ میری نسل کس طرح چلے گی؟حسینی سادات کا سلسلہ کس سے جاری رہے گا؟میرے پاس جو امانتیں ہیں وہ کیسے سپرد کی جائیں گی؟ میرے لخت ِ جگر !یہ ساری امیدیں تم سے وابستہ ہیں۔دیکھو میری طرح صبر و استقامت سے رہنا۔راہ ِ حق میں ہر آنے والی تکلیف و مصیبت کو برداشت کرنا اور ہر حالت میں اپنے نانا جان ﷺ کی شریعت اور اُن ﷺ کی سنت کی پیروی کرنا۔میرے بعد تم ہی میرے جان نثار ہو۔تمہیں میدان ِ کارزار میں جانے کی اجازت نہیں ۔پھر امام ِ عالی مقام ؓ نے انؓ کو تمام ذمہ داریوں کا حامل کیا۔اپنی دستار مبارک اتار کر انؓ کے سر پر رکھ دی اور انؓ کو بسترِعلالت پہ لٹا دیا۔
اب امامِ پاکؓ اپنے خیمے میں تشریف لائے۔ صندوق کھولا۔قبائے مصری زیبِ تن فرمائی اور تبرکات میں سے اپنے نانا جان ﷺ کا عمامہ مبارک اپنے سر پر باندھا۔سید الشہداءحضرت امیر حمزہؓ کی ڈھال پشت پر رکھی.... شیرِ خداؓکی تلوارِ ذوالفقار گلے میںحمائل کی اور جعفرطیارؓ کا نیزہ ہاتھ میں لیا۔اور اس طرح تاجدارِ کربلا ؓ، پیکرِ صبر و رضاؓسب کچھ راہِ حق پر قربان کرنے کے بعد اپنی جان نثار کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔بیبیوں نے جب یہ منظر دیکھا تو ان کے چہروں کے رنگ اڑ گیااور آنکھوں سے موتی ٹپکنے لگے۔سب دُکھی دل بیبیوں کو ایک نظر دیکھ کر فرمایااللہ تم لوگوں کا حافظ و نگہبان ہے۔اور تمام اہل ِ خیمہ کو صبر و شکر کی وصیت فرماکے اپنا آخری دیدار کرا کے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔سب کو اللہ کے حوالے کر کے دشمنوں کے سامنے پہنچ گئے۔کئی دن کے بھوکے پیاسے اور بیٹوں ، بیٹیوں ، بھتیجوں اور جانثار ساتھیوں کے غم سے نڈھال ...مگر اس کے باوجود پہاڑوں کی طرح جمی ہوئی فوجوں کے مقابلے میں شیر کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ایک ولولہ انگیز رجز پڑھی۔جو آپ ؓ کے ذاتی نسب اور فضا ئل پر مشتمل تھی۔پھرآپ ؓ نے فصیح و بلیغ تقریر کی۔اس میں آپ ؓ نے حمد و صلوٰة کے بعد فرمایا:
اے لوگو!تم جس رسول ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہواسی رسول ﷺکاارشاد ہے کہ جس نے حسنؓ و حسین ؓ سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی ۔اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی ۔تو اے یزیدیو!اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔اور میری دشمنی سے باز آ جاﺅ۔اگر واقعی خدا اور رسول ﷺ پر ایمان رکھتے ہوتو سوچو کہ اس خدائے شہید و بصیر کو کیا جواب دو گے؟ اور رسول اللہ ﷺ کو کیا منہ دکھاﺅ گے؟ بے وفاﺅ!تم نے مجھے خطوط بھیج کر بلایا اور جب میں یہاں آیا تو تم نے میرے ساتھ ایسا بُرا سلوک کیاکہ مظالم کی انتہا کر دی۔ظالمو!تم نے میرے بیٹوں ،بھائیوں اور بھتیجوں کو خاک و خون میں تڑپایا۔ چمن ِ زہراءؓ کے ایک ایک پھول کو کاٹ ڈالا۔میرے تمام ساتھیوں کو شہید کر دیا اور اب میرے خون کے پیاسے ہو۔اپنے رسول ﷺ کا گھر برباد کرنے والو! اگر قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو اپنے انجام پر غور کرو اور اپنی عاقبت پر نظر ڈالو۔پھر یہ بھی سوچو کہ میں کون ہوں؟ کس کا نواسہ ہوں؟ میرے والد کون ہیں؟ اور میری والدہ کس کی لختِ جگر ہیں؟ میں فاطمہ زہرہ ؓ کا فرزند ہوں کہ جن کے پل صراط سے گزرتے وقت عرش سے ندا کی جائے گی۔اے اہلِ محشر!اپنے سروں کو جھکا لو اور اپنی آنکھیں بند کر لو کہ خاتون ِ جنت ؓستر ہزار حوروں کے ساتھ گزرنے والی ہیں۔بے شرمو! اب بھی وقت ہے شرم سے کام لو۔اور میرے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین نہ کرو

حضرت امامِ حسین ؓ کی تقریر سن کر یزیدی لشکر کے بہت سے لوگ متاثر ہو گئے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئی۔لیکن شمر وغیرہ بدبخت یزیدیوں نے کوئی اثر نہیں لیا۔بلکہ جب انہوں نے دیکھا کہ امامِ عالی مقامؓ کی تقریر کا اثر ہونے لگا ہے تو انہوں نے شور و غل مچانا شروع کر دیاکہ آپ یا تو یزید کی بیعت کریں یا پھر جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔اس کے علاوہ ہم اور کچھ نہیں سننا چاہتے۔
امام عالی مقام ؓ نے فرمایا :
اے بد بختو!مجھے خوب معلوم ہے کہ تمہارے دلوں پر بد بختی کی مہر لگ چکی ہے اور تمہاری غیرت ِ ایمانی مردہ ہو چکی ہے۔لیکن میں نے یہ تقریر صرف اتمام ِ حجت کے لیے کی ہے تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم نے حق اور امام بر حقؓ کو پہچانا نہ تھا۔اللہ کا شکر ہے کہ میں نے تمہارا یہ عذر ختم کر دیا۔اب رہا یزید کی بیعت کا سوال ؟تو یہ مجھ سے ہرگز نہیں ہو سکتا کہ میں باطل کے سامنے سر جھکا دوں۔
امامِ عالی مقام ؓ نے جب دیکھا کہ یہ بدبخت میرے قتل کا وبال اپنی گردنوں پر ضرور لیں گے۔اور میرا خون بہانے سے کسی طرح باز نہیں آئیں گے تو آپ ؓ نے فرمایا:
اب تم لوگ جو ارادہ رکھتے ہوپورا کرواور جسے میرے مقابلے کے لیے بھیجنا چاہتے ہو بھیجو۔ بڑے بڑے مشہور بہادر جو شیرِ خدا کے شیر کے لیے محفوظ رکھے گئے تھے ان میں سے ابنِ سعد نے سب سے پہلے تمیم بن قحطبہ کو حضرت امام حسینؓ سے جنگ کے لیے بھیجا۔جو ملک شام کا نامی گرامی پہلوان تھا۔وہ غرور و تمکنت سے ہا تھی کی طرح جھومتا ہوا اور اپنی بہادری کی ڈینگیںمارتا ہوا حضرت امام ِ حسین ؓ کے سامنے آیا اور پہنچتے ہی آپ ؓ پر حملہ کر دیا ۔ابھی اس کا ہاتھ اٹھا ہی تھا کہ شیرِخدا کے شیر نے ذوالفقار ِ حیدر سے ایسے جچا تلا وار کیا کہ اس کا سر جسم سے اڑ گیا۔اور اس کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔
پھر یزید ابطحی بڑے گھمنڈ سے آگے بڑھا اور چاہا کہ امامؓ کے مقابل بہادری کے جوہر دکھا کر یزیدیوں کی جماعت میں شاباشی حاصل کر لے اور انعام و اکرام کا مستحق بنے۔آپ ؓ کے سامنے پہنچ کر ایک نعرہ مارا اور کہا کہ شام و عراق کے بہادران کوہ ِ شکن میں میری بہادری کا غلغلہ ہے۔میں روم و مصر میں شہرئہ آ فاق ہوں۔بڑے بڑے بہادروں کو آنکھ جھپکنے میں موت کے گھاٹ اُتارتا ہوں۔اور ساری دنیا کے لوگ میری شجاعت و بہادری کا لوہا مانتے ہیں۔اور میرے سامنے بھیڑ بکریوں کی طرح بھاگتے ہیں۔کسی میں مجھ سے مقابلے کی طاقت نہیں۔آج تم میری قوت اور میرے داﺅ پیچ دیکھو۔
امامِ عالی مقام ؓ نے فرمایاتم مجھے جانتے نہیں میں اپنی رگوں میں حسینی قوت رکھتا ہوں۔فاتحِ خیبر شیرِخدا علی مشکل کشا کا شیرِنر ہوں۔تم جیسے نامرادوں کی میری نگاہ میں کوئی حقیقت نہیں۔میرے نزدیک مکھی اور مچھر سے زیادہ تیری کوئی حیثیت نہیں۔شامی جوان یہ سن کر آگ بگولا ہو گیا اور فوراً گھوڑا کدا کر آپؓ پر تلوار سے وار کر دیا۔حضرت امامِ حسین ؓ نے اس کے وار کو بیکارکر دیااور پھر جھپٹ کر اس کی کمر پر تلوار ایسی ماری کہ وہ کھیرے کی طرح کٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا اور منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔
بدر بن سہیل یمنی اس منظر کو دیکھ کر غصے سے لال پیلا ہو گےا اور ابن ِ سعد سے کہا کہ تم نے کن گنواروں کو حسین ؓ کے مقابلے میں بھیج دیا جو دو ہاتھ بھی جم کر مقابلہ نہ کر سکے۔میرے چاروں بیٹوں میں سے کسی ایک کو بھیج دو۔ پھر دیکھو ابھی منٹوں میں حسینؓ کا سر کاٹ کر لاتے ہیں۔ابنِ سعد نے اس کے بڑے بیٹے کو اشارہ کیا۔ وہ گھوڑا کداتا ہوا امامِ عالی مقام ؓ کے سامنے پہنچ گےا۔آپ ؓ نے فرمایا بہتر ہوتا کہ تیرا باپ مقابلے میں آتا تاکہ وہ تجھے خاک و خون میں تڑپتے نہ دیکھے۔پھر آپ ؓ نے ذوالفقار ِ حیدری سے ایک وار میں اس کا کام تمام کر کے جہنم رسید کر دیا۔بدر نے جب اپنے مشہور شہسوار بیٹے کو اس طرح ذلت کے ساتھ قتل ہوتے دیکھاتو غیض و غضب کا پتلا بن کر دانت پیستے ہوئے گھوڑا دوڑا کر امام ِعالی مقام ؓ کے سامنے آیا اور پہنچتے ہی نیزے سے وار کیا۔ آپ ؓ نے اس کے نیزے کو قلم کر دیا۔اس نے فوراََ تلوار سنبھال لی اور کہا حسین ؓ دیکھنا میں وہ شمشیر مارتا ہوں کہ اگر پہاڑ پر ماروں تو وہ سرمہ بن جائے۔اور یہ کہتے ہوئے امام ؓ پر تلوار چلا دی۔آپ ؓ نے اس کے وار کو خالی کر دیا۔اور اس پر ذوالفقار کا ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ بدر کا سر کٹ کر گیند کی طرح دور جا گرا۔
اسی طرح شام و عراق کے ایک سے ایک بہادر حضرت امامِ حسین ؓ کے مقابلے میں آتے رہے مگر جو بھی سامنے آیا ۔آپ ؓ نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کوئی بھی اس سے زندہ بچ کر نہیں گیا۔شیر ِ خدا کے شیر نے تین دن کے بھوکے پیاسے ہونے کے باوجود شجاعت و بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ زمینِ کربلا میں بہادرینِ کوفہ و شام کا کھیت بو دیا۔کسی کے سینے میں نیزہ مارا اور پار نکال دیا اور کسی کو نیزے کی انی پراٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور اس کی ہڈیاں توڑ دیں اور گھوڑے کی ٹانگوں سے ان کو روند دیا ۔کسی کی کمر پر تلوار ماری تو وہ دو ٹکڑے ہو کر زمین پر گرا، کسی کی گردن پر ذوالفقار ِ حیدری چلائی تو اس کا سر گیند کی طرح دور جا گرا۔اور کسی کے سر پر تلوار چلائی تو وہ زین تک کٹ گیا۔
اس معرکے کے دوران جب آپؓ کو بہت ہی پیاس لگی تو آپ ؓ نے پانی کے لیے دریا ئے فرات کا رخ کیا۔مگر دشمن سخت مزاحمت کرنے لگا ۔اچانک ایک تیر آیا اور آپ ؓ کے چہرے کو زخمی کر دیا۔آپ ؓ نے تیر کھینچ کر نکالا۔پھر ہاتھ چہرے کی طرف اُٹھائے تو ہاتھ کا چلُو خون سے بھر گیا۔آپ ؓ نے اپنا خون آسمان کی طرف اُچھال دیا۔اور خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہاالٰہی !میرا شکوہ تجھی سے ہے۔ دیکھ تیرے رسول ﷺ کے نواسے کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔اس کے بعد شمر بن ذی الجوشن کوفہ کے تقریبا دس آدمیوں کو ساتھ لے کر حضرت امام ِحسین ؓ کے خیمے کی طرف بڑھا۔جہاں آپ ؓ کے اہل و عیال اور مال و اسباب تھا۔حضرت امام ِ حسین ؓ اپنے اہل خانہ اور قافلہ کی طرف آنے لگے تو شمر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ آپ ؓ کے اور آپؓ کے قافلہ کے درمیان حائل ہو گےا۔اس پر حضرت امام حسین ؓ نے فرمایاافسوس ہے تم پراگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے اور تم قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے تو کم از کم دنیا کے ذی حسب اور شریف انسان تو بنو۔اور اپنے اوباشوں اور جاہلوں کو میرے اہل و عیال اور مال و اسباب سے دور رکھو
اس پر شمر نے جواب دیا کہ اے فاطمہ کے بیٹے !تیرا یہ مطالبہ منظور ہے۔
عبداللہ بن عمارؓ سے مروی ہے کہ جب امام ِ عالی مقامؓ کا محاصرہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ میمنہ پر حملہ آور ہوا اور حضرت امامِ حسینؓ کا حملے سے تمام سپاہی ڈر کر بھاگ گےا۔خدا کی قسم !میں نے حسین ؓ سے پہلے اور حسینؓ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو کثیر دشمنوں میں اس حالت میں گھرا ہو کہ اس کی اولاد اور ساتھی قتل ہو گئے ہوں۔مگر وہ پھر بھی حضرت امامِ حسینؓ کی طرح شجاع ، دلیر اور مطمئن ہو۔(البدایہ و النہایہ)
حضرت امامِ حسین ؓ دن کا طویل حصہ میدان میں کھڑے لڑتے رہے۔ اگر لوگ چاہتے تو فوراً آپؓ کو قتل کر دیتے لیکن ہر شخص دوسرے پر ٹالتا رہا۔آخر شمر بن ذی الجوشن نے کہاتمہارا بُرا ہوکیا انتظار کررہے ہو؟ کام تمام کیوں نہیں کرتے؟اس پر ہر طرف سے آپؓ کو گھیرا جانے لگا۔آپ ؓ نے پکار کر کہاکیا میرے قتل پر ایک دوسرے کو اُبھارتے ہو؟ واللہ !میرے بعد خدا تعالیٰ کسی بندے کے قتل پرنا خوش نہیں ہو گاجتنا میرے قتل پر نا خوش ہو گا۔ (ابن اثیر)
جب دست بدست جنگ میں بُری طرح شکست کھائی تو چاروں طرف سے گھیر لیا اور سینکڑوں کی تلواریں بیک وقت چمکنے لگیں۔نیزے آپس میں ٹکرانے لگے اور دشمن بڑھ بڑھ امامِ عالی مقام ؓ پر وار کرنے لگے۔حضرت امامِ حسین ؓ اپنے جوہر دکھا رہے تھے۔اور جس طرف حملہ کرتے صفوں کی صفیں اُلٹا دیتے اور دشمنو ں کے سروں کو اس طرح اُڑاتے جیسے بادِ خزاں کے جھونکے درختوں سے پتے گراتے ہیں۔ابنِ سعد کو جب اس طرح بھی کامیابی نہ ملی تو اس نے حکم دیا کہ چاروں طرف سے تیروں کا مینہ برسایا جائے۔اورجب خوب زخمی ہو جائیں تب نیزے سے حملہ کیا جائے۔تیر اندازوں نے آپؓ کو گھیر لیا اور بیک وقت ہزاروں تیر کمانوں سے چھوٹنے لگے اور تیروں کی بارش شروع ہو گئی۔آپؓ کا گھوڑا اس قدر زخمی ہو گےا کہ اس میں کام کی طاقت نہ رہی۔مجبوراََ امامِ عالی مقامؓ کو ایک جگہ ٹھہرنا پڑا۔ہر طرف سے تیر آ رہے تھے۔اور امام ِ عالی مقامؓ کا جسمِ اقدس زخموں سے چور چور اور لہو لہان ہو گےا۔بے وفا کوفیوں نے جگر پارئہ رسول ﷺ فرزند ِ بتولؓ کو مہمان بلا کر اُنؓ کے ساتھ یہ سلوک کیا۔اتنے میں زہر میں بجھا ہوا ایک تیر آپؓ کی اس مقدس پیشانی پر لگا جسے نبی ِ کریم ﷺ نے ہزاروں بار چوما۔تیر لگتے ہی چہرئہ انور پر خون کا دھارہ بہہ نکلا۔ آپؓ گھوڑے سے نیچے آ گرے۔ ان ظالموں نے نیزوں سے حملہ کیا سنان بن ابی عمرو بن انس مخفی نے ایک ایسا نیزہ مارا جو تنِ اقدس سے پار ہو گےا۔اور اس طرح جب امامِ عالی مقام ؓ شہید ہوئے تو آپ ؓ کے بدن مبارک پہ نیزے کے تینتیس اور تلوار کے چونتیس زخم تھے۔
زندگی کے آخری لمحات آ پہنچے امام ِ عالی مقام ؓ نے دریافت فرمایا کہ کون سا وقت ہے؟ جواب ملا نماز کا وقت ہے۔ فرمایامجھے اپنے مولا کے حضور آخری سجدہ کر لینے دو۔خون آلود ہاتھوں سے تیمم کیا اور بارگاہ ِ خدا وندی میں سجدہ ریز ہوئے اور باری تعالیٰ سے دعا کی کہ یہ زندگی تیری ہی دی ہوئی ہے۔اور اسے تیری ہی راہ میں قربان کر رہا ہوں۔اے خالقِ کائنات !میرا یہ آخری سجدہ قبول کرنا۔
بد بخت شمر آگے بڑھااور چاہا کہ امام ِ عالی مقام ؓ کا سر تن سے جدا کر دے۔کہ حضرت امامِ حسین ؓ نے فرمایا کہ میرے قاتل ذرا مجھے اپنا سینہ تو دکھا کیونکہ نانا جان ﷺ نے مجھے جہنمی کی نشانی بتائی تھی۔
امام ابنِ عساکرنے سیدنا حسین بن علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضورنبیِ اکرمﷺ نے فرمایا گویا کہ میں ایک سفید داغوں والا کُتا دیکھ رہا ہوںجو میرے اہل ِ بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے
محمد بن عمرو بن حسین بیان فرماتے ہیں کہ ہم سید نا امامِ حسین ؓ کے ساتھ کربلا کے دریا پہ موجود تھے تو آپ ؓ نے شمر کی طرف دیکھا تو فرمایااللہ اور اس کے رسول ﷺ نے سچ فرمایا۔ رسولﷺ نے فرمایا کہ گویا کہ میں ایک سفید داغوں والا کُتا دیکھ رہا ہوںجو میرے اہل ِبیت کے خون میں منہ مار رہا ہے چنا چہ آپؓ نے نشانی دیکھ کر فرمایا ہاں یہ بد بختی تیرے ہی مقدر میں ہے۔وہ بدبخت آگے بڑھا اور سر ِ اقدس کوتن سے جُدا کر دیا۔
ادھر روح قفس ِ عنصری سے پرواز کی اُدھر ندا آئی اے اطمینان پا جانے والے نفس !تو اپنے رب کی طرف اس طرح لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیرا مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب) حسین ؓ میں تجھ سے راضی ہو گیا۔اے روحِ حسینی ؓ !میرے پاس لوٹ آ۔جنت کے دروازے کھلے ہیں۔حور و غلمان تیرے منتظر ہیں۔قدسیان وملک تیرے انتظار میں ہیں۔
اس قدر ظلم ڈھانے کے بعد بھی یزیدیوں کا جذبہ

بغض و عناد ختم نہ ہوا بلکہ انہوں نے امام ِ عالی مقام ؓ کے جسمِ اطہرکو گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کیا ۔پھر خیمے کی طرف بڑھے تمام اسباب اور سامان لوٹ لیا اور پردہ نشین خواتین کا بھی خیال نہ کیا۔اور خیموں کو بھی آگ لگانے لگے اور حد یہ کہ امام ِ عالی مقام ؓ کا جسمِ اقدس سے کپڑے بھی اتار لیے۔آپ ؓ کاجُبہ جو کہ خرم عصر ی کا تھا وہ قیس بن محمد اشعث نے تن ِ بے سر سے اتار لیا ۔بحربن کعب نے پاجامہ لیا۔اسود بن خالد نے نعلین اتار لیے۔عمر بن یزید نے عمامہ مبارک اتار لیا۔یزید بن شبل نے چادر لے لی ۔سنان بن انس مخفی نے زِرہ اور انگوٹھی اتار لی۔بنی ِ نہش کے ایک شخص نے تلوار لے لی۔جو بعد میں حبیب بن بدیل کے خاندان میں آ گئی۔
حضرت امامِ حسینؓ کو شہید کرنے کے بعد شمر نے حضرت زین العابدینؓ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا جو ابھی گیارہ یا تیرہ سال کے تھے اور بیمار بھی تھے۔مگر حمید بن مسلم نے جو شمر کے ساتھیوں میں سے تھا، نے شمر کو روک دیا۔پھر عمر بن سعد خیموں میں آ گےا ۔اور اس نے کہا کہ خبردارکوئی ان عورتوں کے قریب نہ جائے اور نہ کوئی اس لڑکے کو قتل کرے اور جس نے ان کے مال میں سے جو چیز لی ہو واپس کر دے۔راوی کا قول ہے کہ خدا کی قسم کسی نے بھی کوئی چیز واپس نہ کی۔
(البدایہ و النہایہ)