ذبحِ اسماعیل ؑ سے ذبحِ حسینؓ تک

حضرت ابراہیم ؑ نے آتشِ نمرود میں بے خوف و خطرکود کر کلمہ

حق کی جس پیغمبرانہ روایت کو آگے بڑھانا تھا۔وہ عظیم روایت زبیح اسماعیل ؑ سے ذبیح حسین ؑ تک تسلیم و رضا اور ایثار و قربانی پر کھڑے رہنے کا اعلیٰ نمونہ دکھاتی ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ نے بے خوف و خطر کلمہ

حق کے لیے آتشِ نمرود میں کود کر نہ صرف مثال قائم کی بلکہ حکمِ الہٰی کی عملًا بجا آوری کے لیے اپنے سعادت مند اور پیارے لختِ جگر کی قربانی کی غرض سے چھری چلا دی۔آپؑ کی تسلیم و رضا اور قربانی کو اللہ نے قبول کیا اور حضرت اسماعیل ؑ کی زندگی محفوظ رکھی کیوں کہ ان کی نسل ِ پاک سے ہی نبیِ آخرالزماں ﷺ کی ولادت باسعادت ہونی تھی ۔اللہ سے اس کو (اور ہم نے ایک عظیم قربانی کو اس کا فدیہ قرار دیا۔ القرآن ) کہہ کر حضرت اسماعیل ؑ کے ذبح کو ذبحِ عظیم قرار دے دیا۔
فرزندِ پیغمبر ؑ کی قربانی بعثتِ مصطفی ﷺ کی خاطر موقوف ہوئی۔ حکمتِ خداوندی یہ تھی کہ حضور ﷺ کے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا۔اس لیے شہادت کے لیے انﷺ کے لختِ جگر کا انتخاب عمل میں آئے گا اور ذبحِ اسماعیل ؑ کو مصطفی ﷺ کے لختِ جگر سیدنا حضرت امامِ حسین ؑ سے ذبحِ عظیم بنا دیں گے۔
غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ؑاور ابتداءہے اسماعیل ؑ