امامِ عالی مقامؓ کا سرِ انور اور ابن زیاد

اگلے دن ا بن زیاد کا دربار لگا اور لوگوں کو بھی اذن ِ عام ہوا تو بھرے دربار میںاس کے سامنے حضرت امام حسین ؑ کا سرِانور ایک طشت میں رکھ کر پیش کیا گےا۔حمید بن مسلم نے کہا کہ عمر بن سعد نے فتح و نصرت کی خوشخبری اوراپنی عافیت کا پیغام دے کر اپنے اہل و عیال کے ساتھ کوفہ بھیجا۔جب میں وہاں پہنچا تو ابن زیاد دربار لگائے ہوئے تھا۔اور ملاقاتیوں کا ایک وفد بھی اس کے پاس بیٹھا تھا۔میں بھی ان کی مجلس میں جا کر بیٹھ گےا۔میں نے دیکھا کہ حضرت امام حسینؓ کا سرِمبارک اس کے سامنے رکھا ہوا تھا وہ تھوڑی دیر اپنی چھڑی سے آپ ؓ کے سامنے کے دانتوں اور لبوں کو کریدتا رہا۔جس پر رسول اللہ ﷺ کے ایک بوڑھے صحابی زید بن ارقمؓ جو اس وقت وہاں موجود تھے۔انؓ سے نہ رہا گےا۔اور وہ اس گستاخی کو دیکھ کے تڑپ گئے ۔اور روتے ہوئے فرمایا کہ چھڑی کو ان دانتوں سے دور ہٹاﺅ۔قسم ہے اس خدا کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ ان لبوں کو چوما کرتے تھے۔یہ کہہ کر ابن ارقم ؓ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔ ابن زیاد نے کہا خدا تجھے رُلائے۔خدا کی قسم تو اگر بوڑھا نہ ہوتا اور تیری عقل نہ ماری گئی ہوتی تو میں تمہیں قتل کر دیتا۔راوی کہتا ہے کہ اس پر ابن ِ ارقم ؓاٹھ کر چلے گئے۔ جب وہ چلے گئے تو لوگوں نے کہا خدا کی قسم !خدا کی قسم زید بن ارقمؓ نے جو بات کہی ہے وہ اگر ابن زیاد سن لیتا تو وہ انہیں ضرور قتل کر دیتا۔حمید بن مسلم نے پوچھا کہ انہوں نے کیا کہا ؟ لوگوں نے کہا کہ وہ ہمارے قریب سے گزرتے ہوئے کہتے جا رہے تھے کہ :
ایک غلام غلاموں کا بادشاہ بن بیٹھا اور حکومت کو اس نے جاگےر بنا لیا ہے۔اے اہل ِ عرب آج کے بعد تم غلام ہو کہ تم نے ابن فاطمہؓ کو شہید کر دیا۔مگر ابن مرجانہ کو اپنا حاکم بنا لیا۔اب وہ تمہارے بہترین لوگوں کو قتل کرے گا اور تم سے بڑوں کو اپنا غلام بنا لے گا۔پس تم اس ذلت و رسوائی کی زندگی پر راضی ہو۔ اس کے مقدر میں محرومی ہے۔(البدایہ و النہایہ)