ابن زیاد اور اسیرانِ کربلا

حضرت امامِ حسین ؓ کے سرِمبارک کے بعد اہلِ بیت ِ نبوت کے بقیہ افراد کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گےا۔حضر ت زینب ؓ نے معمولی سا لباس پہنا ہوا تھا اور لونڈیوں کے جھرمٹ میں تھیں ۔ا س لیے پہچانی نہیں جا تی تھیں۔جب انہیں ابنِ زیاد کے سامنے پیش کیا گےا ۔تو اس نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟حضرت زینب ؓ کچھ نہ بولیں اس پر ایک لونڈی نے کہا کہ یہ زینبؓ بنتِ علی ؓ ہیں۔
ابن ِ زیاد نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ جس نے تمہیں رسوا کےا اور قتل کیا اور تمہارے دعوی کو جھوٹا کیا ۔حضرت زینب ؓ نے فرمایا بلکہ ہمیں سب سے زیادہ عزت بخشی اور پاک و طاہر بنایا بلاشبہ۔ اور فاسق کو رسوا کرتا ہے اور فاجر کو جھٹلاتا ہے۔ابن ِ زیاد نے کہا کہ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے اہل ِ بیت کے ساتھ کیا سلوک کےا؟ حضرت زینب ؓ نے فرمایا کہ ان کے لیے شہادت مقدر ہو چکی تھی۔اس لیے وہ اپنی شہادت گاہ کی طرف خود نکل کر آگئے۔عنقریب اللہ تعالیٰ ان کو اور تجھ کو ایک جگہ جمع کرے گا۔اس وقت وہ تیرا معاملہ اللہ کی عدالت میں پیش کریں گے۔اس پر ابن زیاد بھڑک اٹھا اور کچھ کاروائی کرنے کا ارادہ کیا تو عمرو بن حریث نے کہا کہ خداتعالیٰ بہتری کرے یہ تو ایک عورت ہے ۔کیا آپ ایک عورت کی باتوں پر گرفت کریں گے؟عورت کی بات پر مواخذہ نہیں کےا جاتا۔اور نہ ہی ان کی نادانی پر ان پر ملامت کی جاتی ہے۔(البدایہ و النہایہ)
جب ابن زیاد نے علی بن حسین ؓ (امام زین العابدینؓ )کو دیکھا تو ایک سپاہی سے کہا اس لڑکے کو دیکھو اگر بالغ ہو گےا ہے تو اسے قتل کر دو۔سپاہی نے امام زین العابدینؓ کی بلوغت کی تصدیق کی تو ابن زیاد نے کہا کہ اسے لے جاﺅ اور قتل کر دو۔اس پر امام زین العابدین ؓ نے فرمایا کہ اگر تیرا ان عورتوں سے قرابت داری کا کوئی واسطہ ہے تو کوئی محافظ بھیج دے جو ان کی حفاظت کرے۔ابن زیاد نے ان سے کہا کہ تم ہی آ جاﺅ اور پھر حضرت زین العابدین ؓ کو ہی عورتوں کے ساتھ بھیج دیا۔