ابن زیاد کے دربار سے یزید کے دربار تک سفر کے دوران کے مختلف واقعات

1 ۔ دوران ِ سفر امام زین العابدین ؓ کی حالت
اس کے بعد ابن ِ زیاد نے بد بختوں کی ایک جماعت کے ساتھ دوسرے شہداءکے سروں کو اور اسیران ِ اہلِ بیت کو یزید کے پاس اس حالت میں بھیجا کہ حضرت امام زین العابدین ؓ کے ہاتھ پاﺅں اور گردن میں زنجیریں ڈال دیںگئیں۔جبکہ عورتوں کو اونٹوں کی ننگی پیٹھ پر بیٹھایا گےا تھا۔ابن زیاد نے اپنے سپاہیوں کو تاکید کر دی کہ وہ سروں کو نیزوں پر چڑھا کر لوگوں کو بتاتے ہوئے جائیں کہ یزید کی مخالفت کرنے والے اس انجام سے دوچار ہوتے ہیںتاکہ لوگ ڈر کر مخالفت سے باز رہیں۔
2 ۔ ابن ِ عفیف کی شہادت
ابن ِ زیاد کی طرف سے اعلان ہوا کہ تمام لوگ جامع مسجد میں جمع ہو جائیں ۔جب لوگ جمع ہو گئے تو ابن ِ زیاد منبر پرچڑھا اوراپنی فتح و کامرانی اور قتل ِ حسین ؓ کے ذکر کے بعد کہا کہ حسین ؓجماعت میں تفرقہ ڈال کر حکومت چھیننا چاہتے تھے۔اس پر عبداللہ بن عفیف ازدی جو حضرت علی ؓ کے اصحاب میں سے تھے اور اپنی بینائی دونوں آنکھوں سے کھو چکے تھے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ افسوس ابن ِ زیاد !نبیوں کی اولاد کو قتل کرتے ہو اور صدیقوں جیسی باتیں کرتے ہو۔ابن ِ زیاد کو اس پر طیش آیا اور اس کے حکم سے انہیں قتل کر کے سولی پر لٹکا دیا گےا۔اور حضرت امام ِ حسین ؓکے سر مبارک کو نیزے پر نصب کر کے ابن زیاد کے حکم پر کوفہ کی گلی کوچوں میں پھرایا گےا اور زہیر بن قیس کے ہا تھ معززین کے ایک وفد کی صورت میں یزید کے پاس ایک گھڑ سوار دستے کی نگرانی میں شام بھیج دیاگےا۔
3 ۔ ایک غیبی شعر
امام ِ عالی مقام ؓ کے سر مبارک کو لے جانے والے قافلے کے راستے میں ایک منزل پر ایک گرجا گھر تھا ۔رات گزارنے کے لیے قافلے نے وہاں قیام کیا ۔اور بقول ابن کثیر وہ لوگ آپ ؓ کا سر مبارک اپنے پاس ہی رکھ کر شراب پینے لگے کہ اتنے میں پردئہ غیب سے ایک آہنی قلم نمودار ہوئی ۔دیوار پر اس نے لکھا ۔ترجمہ:
کےا حسین ؓ کو شہید کرنے والے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ قیامت کے روز اُنؓ کے نانا ﷺ اِن کی شفاعت کریں گے(البدایہ و النہایہ)
بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ یہ شعر پہلے سے ہی دیوار پہ لکھا ہوا تھا ۔بد بختوں نے جب یہ دیکھا تو بہت تعجب ہوا اور گرجا گھر کے راہب سے پوچھا کہ یہ شعر کس نے لکھا ہے اور کب کا لکھا ہوا ہے؟
راہب نے کہا کہ کس نے لکھا ہے یہ تو مجھے معلوم نہیںالبتہ اتنا جانتا ہوں کہ تمہارے نبیﷺ کے زمانے سے پانچ سو برس پہلے کا لکھا ہوا ہے۔
4۔ عیسائی راہب کا اسلام قبول کرنا
جس گرجا میں یہ قافلہ ٹھہرا ہوا تھا اس گرجا کے راہب نے جو شہیدوں کے سروں کو نیزوں پر اور چند عورتوں کو اسیری کی حالت میں دیکھا تو اس کے دل پربڑا اثر ہوا۔اس نے یہ حالت دریافت کی۔جب اس کو سب معلوم ہوا تو وہ سخت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ تم لوگ بہت بُرے ہو۔کےا کوئی اپنے نبی کی اولاد کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتا ہے جیسا تم نے کیا؟پھر اس راہب نے کہا کہ اگر تم ایک رات کے لیے اپنے نبی کے نواسے کا سر میرے پاس رہنے دو اور مجھے ان عورتوں کی خدمت کا موقع دو تو میں تم کو دس ہزار دینار اس کے بدلے میں دوں گا۔وہ لوگ دولت کے غلام تھے اس لیے انہوں نے دس ہزار دینار کی خاطر رات کو راہب کے پاس پڑاﺅ کرنا قبول کر لےا ۔راہب نے اپنا گھر خالی کر لےا ۔پردے دار مقدس بیبیوں کو گھر کی چار دیواری میں ایک صاف کمرہ رات گزارنے کے لیے پیش کےا۔اور اپنی خدمت پیش کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیں۔میں مسلمان نہیں ہوں ۔میرے دل میں تمہارے خاندان کی بڑی عزت ہے۔راہب نے گرجے کے خادموں سے کہا کہ رات بھر ان مقدس عورتوں کی خدمت کرو کیونکہ یہ مسلمانوں کے نبی کی بیٹیاں ہیں۔اور وہ خود امام ِ عالی مقام ؓ کا سرِ مبارک ایک دھلے ہوئے صاف طشت میں رکھ کر چہرئہ مبارک کو مقدس زلفوں اور داڑھی مبارک جو غبار اور خون میں اٹے ہوئے تھے... کو دھونے لگا۔ اس نے چہرئہ مبارک دھو کر صاف کیا اور عطر کافور لگا کر معطر کیا۔ پھر بڑے ادب و تعظیم کے ساتھ ساری رات سرِانور کے سامنے بیٹھا زار و قطار روتا رہا۔
ساری رات اس خدمت کے عوض خانوادئہ رسولﷺ کی مقدس بیبیاں اس راہب کو دعائیں دیتی رہیں۔اور سرِحسین ؓ بھی زبانِ حال سے اسے دعائیں دیتا رہا۔یہاں تک کہ راہب کی قسمت کا ستارہ چمکا اور اس کی آنکھوں سے حجابات اٹھ گئے ۔اور وہ نور جو خولی کی بیوی نے عرش سے فرش تک پھیلا ہوا دیکھا تھا وہ راہب پر بھی آشکار ہو گےا۔اور اس نے بھی دیکھا کہ ایک ہالہ

نور ہے جو سرِحسین ؓ کے گرد طواف کر رہا ہے۔جب اس نے یہ حیرت انگیز منظر دیکھا اور سرِمقدس کے رعب و جلال کا مشاہدہ کیا تو اس کے دل کی کیفیت بدل گئی۔اس کی محبت اور حسن ِ عقیدت کا صلہ ملنے کا انتظام ہو گےا۔اس کی زباں سے بے ساختہ کلمہ
شہادت جاری ہو گےا۔چونکہ اس نے دنیا کی دولت قربان کی تھی اس لیے اسے ایمان کی دولت عطا فرما دی گئی ۔اب اس کے لیے اہلِ بیتِ نبوت سے دور رہنا نا ممکن ہو گےاچنانچہ جب اگلے روز قافلہ روانہ ہوا تو وہ بھی مطیع و خادم بن کر ساتھ ہو لیا۔(الصداعق المحرقد)
یہاں ایک اور نہایت حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا۔یزیدی فوج کے بد بخت سپاہیوں نے امام ِ عالی مقام ؓ کے لشکر کے خیموں سے جو درہم و دینا ر لوٹے تھے اور جو دینار انہوں نے راہب سے لیے تھے ان کو تقسیم کرنے کے لیے جب تھیلیوں کے منہ کھولے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ سب درہم و دینار ٹھیکریاں بنے ہوئے تھے۔ان کی ایک طرف آیت ِ مبارکہ لکھی ہوئی تھی ۔
اور اے مخاطب !تو یہ ہرگز خیال مت کرنا کہ یہ ظالم جو کچھ کرتے ہیں اللہ ان کے (اعمال) سے بے خبر ہے(سورة ابرہیم
جبکہ ان کے دوسری طرف یہ آیت لکھی ہوئی تھی:
اور جن لوگوں نے ظلم ڈھایا ہے ان کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ انہیں کس کروٹ لوٹایا جائے گا (سورة الشعرا
یزیدی فوج کے پاس درہم و دینار کے ٹھیکریاں بن جانے میں ایک تنبیہ بھی تھی کہ تم نے اس فانی اور مادی دنیا کے لیے دین چھوڑا اور آل ِ رسول ﷺ پر ظلم و ستم کیا ہے۔ یاد رکھو!دین تو تم نے چھوڑ ہی دیا ہے مگر جس فانی اور بے وفا دنیا کے لیے تم نے دین چھوڑا ہے وہ بھی تمہارے ہاتھ نہیں آئے گی اور تم دنیا اور آخرت میں خسارہ پانے والوں میں ہو جاﺅ گے۔
5۔ ایک صحابی کا پیار اسیرانِ کربلا کے لیئے
جب یزید پلید کو معلوم ہوا کہ اسیرانِ کربلا اور حضرت امام حسین ؓ وغیرہ کے سر عنقریب دمشق پہنچنے والے ہیں تو اس نے پورے شہر کو آراستہ کرنے اور سب کو خوشی منانے کا حکم دیا۔
نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی سہلؓ تجارت کے لیئے ملک شام آئے ہوئے تھے۔ جب وہ دمشق شہر میںداخل ہوئے تو دیکھا کہ سب لوگ خوشی منا رہے ہیں ۔ انہوں نے لوگوں سے وجہ پوچھی تو بتا یا گیا کہ اہلِ عراق نے حسین ابن ِ علیؓ کے سر کو یزید کے پاس ھدیہ بھیجا ہے۔ تمام اہل شہر اس کی خوشی منا رہے ہیں۔حضرت سہلؓ نے ایک سرد آہ بھری اور پوچھا کہ حضرت امام حسینؓ کا سر مبارک کون سے دروازے سے لائیں گے۔ بتایا گیا کہ بابِ الساعتہ سے ۔آپ اس تیزی سے بڑھے اور بڑی دوڑ دھوپ کے بعد اہل ِبیت تک پہنچ گئے۔ آ پ نے دیکھا کہ ایک سر ہے جو رسول اللہﷺ کے سر سے بہت زیادہ مشابہ ہے، نیزے پر چڑھا رکھا ہے، جسے دیکھ کر آپ بے اختیا ر رو پڑے۔
اہلِ بیت میں سے ایک نے پوچھا کہ تم ہم پر کیوں رو رہے ہو؟ حضرت سہلؓ نے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ فرمایا میرا نام سکینہ بنتِ حسینؓ ہے۔ انہوں نے فرمایا اور میں آپ کے ناناجان نبی کریمﷺ کا صحابی ہوں۔ اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو توحکم فرمائےے۔حضرت سکینہؓ نے فرمایا میرے والدؓ کے سرِ انور کو سب سے آگے کرادیجیئے تا کہ لوگ ادھر متوجہ ہو جائیں اور ہم سے دور رہیں۔ حضرت سہل ؓ نے ۰۰۴ درھم دے کر امامِ عالی مقام کے سر مبارک کو آگے کرا دیا۔
6 ۔ حضرت بی بی سکینہ ؓ
قافلہ چلا جا رہا تھا کہ رات کے وقت ایک مقام پر حضرت امامِ حسین ؓ کے سر مبارک والا نیزہ جس نے پکڑ رکھا تھا وہ زور لگانے پر بھی آگے نہیں بڑھ پا رہا تھا۔سب نے بہت زور لگایا پر کچھ نہ ہوا ۔تو سب کو خیال آیا کہ بی بی سکینہؓ ساتھ موجود نہیں ہیں۔ذرا فاصلے پر جا کے ڈھونڈا تو بی بی سکینہؓ وہاں کہیں گر گئیں تھیں۔اور اپنے بابا جان کو پکار پکار کے رو رہیں تھیں۔انہیں اپنے ساتھ قافلے میں لایا گےا تو قافلہ چل پڑا اور امامِ حسین ؓ کے سر مبارک والا نیزہ بھی آرام سے آگے چلنے لگا۔اور حضرت بی بی سکینہؓ کے بارے میں ہی بتایا جاتا ہے کہ آپ ؓ شام کے ایک قید خانے میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔