اہلِ بیت کی مدینہ منورہ واپسی

صحابیِ رسول نعمان بن بشیر ؓ جو حضرت مسلم بن عقیل ؓ کے ساتھ کوفہ میں سختی نہ کرنے کی وجہ سے گورنری سے معزول کر دیے گئے تھے۔یزید نے انہیں اہل ِ بیت رسالت کا ہمدرد سمجھ کر بلایا اور کہا کہ حسین ؓ کے اہل و عیال کو عزت و احترام کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچانے کا انتظام کرو اور پھر اپنے آپ کو قتل ِ حسین ؓ سے بری ثابت کرنے لیے حضرت زین العابدینؓ کو تنہائی میں بلا کر کہا کہ خدا کی لعنت ابن ِ زیاد پر ۔اگر براہ ِ راست آپؓ کے والدؓ کا اور میرا سامنا ہو جاتا تو جو کچھ وہ فرماتے میں منظور کر لیتا اور انؓ کو قتل کرنا ہرگز گوارہ نہ کرتا۔لیکن جو خدا کو منظور تھا وہ ہوا ۔اب آپ مدینہ منورہ تشریف لے جائیں۔مجھ کو وہاں سے خط لکھتے رہیئے گا ۔جس کی ضرورت ہو گی مجھے خبر کیجیے گا(طبری)
حضرت نعمان بن بشیر ؓ کے ہمراہ تیس آدمیوں کا حفاظتی دستہ کےا گےا۔وہ اہل ِ بیت کو لے کر مدینہ روانہ ہوئے۔اور راستہ بھر نہایت تعظیم و تکریم سے پیش آتے رہے۔
مدینہ طیبہ کے لوگوں کو واقعہ کربلا کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔جب یہ ستم رسیدہ قافلہ مدینہ شہر میں داخل ہوا تو اس قافلے کو دیکھنے کے لیے تمام اہل ِ مدینہ اپنے گھروں سے نکل آئے۔حضرت اُم لقمان بن عقیل بن ابی طالب اپنے خاندان کی عورتوں کے ساتھ روتی ہوئی نکلیں۔ اور یہ اشعار پڑھے :


لوگو کیا جواب دو گے جب نبی

کریم ﷺ تم سے پوچھیں گے کہ تم نے آخری امت ہونے کے باوجود کیا کیامیرے بعد میری اولاد اور اہل ِ بیت کے ساتھ کہ ان میں سے بعض کو تم نے اسیر کیا اوربعض کا خون بہایا۔میں نے تم کو جو نصیحت کی تھی کہ میرے بعد میرے قرابت داروں کے ساتھ بُرا سلوک نہ کرنا ....سب کی جزا یہ تو نہ تھی(البدایہ و النہایہ۔ابن اثیر)
تمام اہل ِ مدینہ حضرت محمد بن حنفیہؓ ، ام المومنین حضرت سلمہ ؓ اور خاندان کی دیگر خواتین بھی روتی ہوئی نکل آئیں ۔قافلہ سیدھا حضور بنی

کریم ﷺ کے روضہ
اقدس پر حاضر ہوا۔ حضرت امام زین العابدین ؓ جو ابھی تک صبر و رضا کے پیکر بنے ہوئے خاموش تھے جیسے ہی انؓ کی نظر قبرِ انور پر پڑی بس اتنا ہی کہنا تھا کہ نانا جان اپنے نواسے کا سلام قبول فرمائیں...کہتے ہی انؓ کا صبر کا پیمانہ چھلک گےا۔اور وہ اس طرح درد کے ساتھ روئے اور حالات بیان کرنا شروع کیے کہ کہرام برپا ہو گےا۔
حضرت امام جعفر صادق ؓ سے مروی ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد حضرت امام زین العابدین ؓ کی ہمیشہ یہ حالت رہی کہ آپ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو اللہ کی عبادت میں گزار دیتے۔افطار کے وقت جب کھانا اور پانی سامنے آتا تو آپ فرماتے کہ میرے باپ اور بھائی بھوکے پیاسے شہید ہوئے۔ افسوس یہ کھانا اور پانی ان کو نہ ملا اور رونے لگتے۔یہاں تک کہ بمشکل چند لقمے اور چند گھونٹ پانی ہی پیتے۔اس میں بھی آپ کے آنسو مل جاتے تھے۔آپ کی آنکھوں سے کربلا کا تصور اور دل سے باپ اور بھائیوں کی یاد کبھی محو نہ ہوتی اور عمر بھر آنکھیں اشک بار ہی رہیں۔
سید الشہداءحضرت امامِ حسینؓ کا سرِ انور کہاں دفن کیا گےا اس میں اختلاف ہے۔ مشہور یہ ہے کہ اسیرانِ کربلا کے ساتھ یزید نے آپ ؓ کے سر مبارک کو مدینہ طیبہ روانہ کیاجو سیدہ فاطمہ زہرہ ؓ یا حضرت امامِ حسن ؓ کے پہلومیں دفن کیاگےا۔