معرکہ

کربلا کے بعد یزید کی خباثت

حضرت امامِ حسینؓ کی ذات مبارکہ یزید کی آزادیوں کے لیے بہت بڑی رکاوٹ تھی۔آپؓ کی شہادت کے بعد وہ بالکل ہی بے لگام ہو گےا۔پھر تو ہر قسم کی بُرائیوں کا بازار گرم ہو گےا۔زنا، حرام کاری، بھائی بہن کا نکاح، سود اور شراب وغیرہ اعلانیہ طور پر رائج ہو گئے۔اور نمازوں کی پابندی اٹھ گئی۔پھر اس کی شیطانیت یہاں تک پہنچی کہ 63 ہجری میں مسلم بن عقبہ کو بارہ یا بیس ہزار لشکر کے ساتھ مدینہ طیبہ اور مکہ معظمہ پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا۔ اس بد بخت لشکر نے مدینہ منورہ میں وہ طوفان برپا کیا کہ الامان و الحفیظ۔قتل و غارت گری اور طرح طرح کے مظالم کا بازار گرم کیا ۔سات سو صحابہ کو بے گناہ شہید کیا۔ اور تابعین وغیرہ کو ملا کر دس ہزار سے زیادہ کو شہید کیا ۔لڑکوں کو قید کر لیا۔ سرکار ِ رحمت ِ دو عالم ﷺ کے روضئہ اقدس کی سخت بے حرمتی کی۔
مسجد ِ نبوی ﷺ میں گھوڑے باندھے ، ان کے لید اور پیشاب منبرِ اطہر پر پڑے۔ تین دن تک لوگ مسجد ِ نبوی ﷺ میں نماز سے مشرف نہ ہو سکے۔حضرت سعید بن مسیب ؓ جو بڑے تابعین میں سے تھے ،پاگل بن کر وہاں حاضر رہے۔آخر میں ظالموں نے انہیں بھی گرفتار کر لیا ۔مگر پھر دیوانہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔خبیث لشکر نے ایک نوجوان کو پکڑ لیا۔ اس کی ماں نے آ کر مسلم بن عقبہ کو فریاد کی اور اس کی رہائی کے لیے بڑی عاجزی سے منت کی۔مسلم نے اس کے لڑکے کو بلا کر گردن مار دی۔اور سر اس کی ماں کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا کہ تو اپنے زندہ ہونے کی غنیمت نہیں سمجھتی جو اپنے بیٹے کو لینے آ گئی۔ایک شخص کو جب قتل کیا گےا تو اس کی ماں ام ِ یزید بن عبد اللہ بن ربیعہ نے قسم کھائی کہ اگر میں قدرت پاﺅں گی تو اس ظالم مسلم کو زندہ یا مردہ جلاﺅں گی۔
جب وہ ظالم مدینہ منورہ میں قتل و غارت کے بعد مکہ معظمہ کی طرف متوجہ ہوئے کہ وہاں جا کر حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ اور وہاں کے ان لوگوں کا بھی کام تمام کر دیںجو یزید کے خلاف ہیںتو اتفاقاً اس پہ رستے میں فالج گرا اور مر گےا۔اس کی جگہ یزید کے حکم کے مطابق حصین بن نمیر سکونی قائد ِ لشکر بنا ۔مسلم کو انہوں نے وہیں دفن کر دیا ۔جب یہ خبیث لشکر آگے بڑھا تو اس عورت کو مسلم کے مرنے کا پتہ چلا ۔وہ کچھ آدمیوں کو ساتھ لے کر اس کی قبر پر آئی تاکہ اس کو قبر سے نکال کر اس کو جلائے ۔جب قبر کھولی تو کیا دیکھتی ہے کہ ایک بڑا سا سانپ اس کی گردن سے لپٹا ہوا ہے اور اس کی ناک کی ہڈی کو پکڑے چوس رہا ہے۔یہ دیکھ کر سب کے سب ڈرے اور اس عورت سے کہنے لگے ۔خدا تعالیٰ خود ہی اس کے اعمال کی سزا اس کو دے رہا ہے اور اس نے عذاب کا فرشتہ اس پر مسلط کر دیا ہے۔اس عورت نے کہا نہیں خدا کی قسم میں اپنے عہد اور قسم کو ضرور پورا کروں گی۔اور اس کو جلا کر اپنے دل کو ٹھنڈا کروں گی۔مجبور ہو کر سب نے کہا کہ اچھا اس کے پیروں کی طرف سے اس کو نکالنا چاہیے جب پیروں کی طرف سے مٹی ہٹائی تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس کے پیروں کی طرف بھی ایک سانپ لپٹا ہوا ہے۔پھر اس عورت سے سب نے کہا کہ اس کو چھوڑ دےااس کے لیے یہی عذاب کافی ہے۔مگر وہ عورت نہ مانی۔وضو کر کے دو رکعت نماز اداکی اور اللہ کے حضور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی الہٰی تُو خوب جانتا ہے کہ اس ظالم پر میرا غصہ محض تیری رضا کے لیے ہے۔مجھے یہ قدرت دے کہ میں اپنی یہ قسم پوری کروں اور اسے جلاﺅں ۔یہ دعا کر کے اس نے ایک لکڑی سانپ کی دم پہ ماری تو وہ گردن سے اتر کر چلا گےا۔پھر دوسرے سانپ کو ماری وہ بھی اتر کر چلا گےا۔تب انہوں نے مسلم کی لاش کو قبر سے نکالا اور جلا دیا۔