مکہ معظمہ پر حملہ

مسلم بن عقبہ کی ہلاکت کے بعد حصین بن نمیر جو شامی لشکر کا سپہ سالار مقرر ہوا اس نے مکہ معظمہ پہنچ کر حملہ کر دیا۔ اہل ِ مکہ جو حجاز والے یزید پلید کی بیعت کو توڑ کر حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ سے بیعت کر چکے تھے ۔ان کی فوج نے لشکر یزید کا مقابلہ کیا اور صبح سے شام تک لڑائی جاری رہی مگر فتح و شکست کا فیصلہ نہ ہوا ۔دوسرے دن حصین بن نمیر نے منجیق( جو پتھر پھینکنے کی مشین ہوتی ہے) اسے کوہ ِ ابو قیس پر نصب کر کے پتھر برسانے شروع کیے۔ سنگ باری سے حرم شریف کا صحن مبارکہ پتھروں سے بھر گےا۔اس کے صدمہ سے مسجد ِ حرم کے ستون ٹوٹ گئے۔کعبہ شریف کی دیواریں شکستہ ہو گئیں اور چھت گر گئی۔شامی پتھر پھینکنے کے ساتھ روئی ، گندھک اور رال گولے بنا کر اور جلا کر پھینکنے لگے جس سے خانہ کعبہ میں آگ لگ گئی۔اس کا غلاف جل گےا۔وہ دنبہ جو حضرت اسماعیل ؑ کی جگہ قربانی کیا گےا تھا اس کے سینگ تبرک کے طور پر کعبہ شریف میں محفوظ تھے وہ بھی جل گئے۔حرم کے باشندوں کا گھروں سے نکلنا دشوار تھا۔ تقریبا ً دو ماہ تک وہ سخت مصیبت میں مبتلا رہے ۔
یہاں شامی لشکر کعبہ شریف کی بے حرمتی میں لگا ہوا تھا ۔ادھر شہرِحمص میں پندرہ ربیع الاول چونسٹھ ہجری کو انتالیس سال کی عمر میں یزید ہلاک ہو گےا ۔سب سے پہلے یہ خبر حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کو ملی انہوں نے بلند آواز سے پکار کر کہا۔اے شامی بد بختو! تمہارا گمراہ سردار یزید ہلاک ہو گےا ہے تو اب کیوں لڑ رہے ہو؟ شامیوں نے پہلے اس بات کو حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کے فریب پر مجہول کیا لیکن تیسرے دن جب انہیں ثابت بن قیس نہعی نے کوفہ سے آ کر یزید کے مرنے کی خبر سنائی تو انہیں یقین ہوا۔اب ان کے حوصلے پست ہو گئے اور حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کی فوج کے حوصلے بلند ہو گئے۔وہ شامیوں پر ٹوٹ پڑے اور شامی بھاگے۔اس طرح اہل ِ مکہ کو ان کے شر سے پناہ ملی۔
یزید پلید نے کل تین برس سات ماہ حکومت کی ۔جب وہ قریہ ہوارین میں ہلاک ہوا تو اس کی موت پر ابن عروہ نے چند اشعار کہے۔جن کے معنی یہ ہیں:
اے بنی امیہ ! تمہارے بادشاہ کی لاش ہوارین میں پڑی ہے ۔موت نے ایسے وقت میں آ کر مارا جبکہ اس کے تکیے کے پاس کوزہ، شراب کا مشکیزہ سر بمہر لبالب بھرا ہوا رکھا تھا اور اس کے نشے سے مست ہونے والے پر ایک گانے والی سرنگی لیے رو رہی تھی۔جو کبھی بیٹھ جاتی اور کبھی کھڑی ہو جاتی تھی۔