قاتلین کا انجام

مختار سقفی:
مختار سقفی نہ تو کوئی بادشاہ تھا نہ حکمران اور نہ ہی اس کے پاس طاقت یا بڑی فوج تھی۔وہ حضرت امامِ حسینؓ کی حمایت میں اٹھا اور قدرت نے اس کا ساتھ دے کر اسے کوفہ کا حاکم بنا دیا۔ مختار نے کوفہ کا حاکم بننے کے بعد جو پہلا حکم جاری کیا وہ یہ تھا کہ جس گھر سے بھی قاتلینِ حسینؓ کی نشان دہی ہوئی اور جس نے بھی ان ظالموں کو پناہ دی ۔اس کے مکان کی بنیادیں اکھیڑ دی جائیں گی۔جو لوگ اس میں شامل تھے وہ چھپنے لگے۔مگر مختار کی فوج نے ہر طرف تلاشی شروع کر دی۔
ابن سعد کا قتل:
مختار نے ایک دن کہا کہ میں کل ایک ایسے شخص کو قتل کروں گا کہ اس سے تمام مومنین اور ملائکہ مقربین بھی خوش ہوں گے۔حیثم بن اسود نہعی اس وقت مختار کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ سمجھ گےا کہ عمر بن سعد کل مارا جائے گا ۔مکان پر آ کر اس نے اپنے بیٹے کو سعد کے پاس بھیج کر اطلاع کر دی کہ تم اپنی حفاظت کا انتظام کرو مختار کل تمہیں قتل کرنا چاہتا ہے۔مگر مختار چونکہ اپنے خروج کے ابتدائی زمانے میں ابن ِ سعد سے نہایت ہی اخلاق کے ساتھ پیش آتا تھا ۔اس لیے اس نے کہا مختار ہمیں نہیں قتل کرے گا۔
دوسرے دن صبح کو مختار نے ابن سعد کو بلانے کے لیے آدمی بھیج دیا ۔ اس نے اپنے بیٹے حفص کو بھیج دیا۔مختار نے اس سے پوچھا تیرا باپ کہاں ہے؟ اس نے کہا وہ خلوت نشین ہو گےا ہے۔اب گھر سے باہر نہیں نکلتا ۔مختار نے کہا اب وہ ”رے “کی حکومت کہاں ہے جس کے لیے فرزند ِ رسول ﷺ کا خون بہایا تھا؟ اب کیوں اس سے دستبردارہو کر گھر میں بیٹھے ہو؟ حضرت امامِ حسین ؓ کی شہادت کے دن وہ کیوں نہیں خانہ نشین ہوا تھا؟
پھر مختار نے اپنے کوتوال ابو عمرہ کو بھیجا کہ ابن سعد کا سر کاٹ کر لے آئے۔وہ ابن سعد کے پاس گےا اور اس کا سر کاٹ کر اپنی قبا کے دامن میں چھپا کر مختار کے پاس لایا اور اس کے سامنے رکھ دیا۔مختار نے حفص سے پوچھا پہچانتے ہو یہ سر کس کا ہے؟ اس نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر کہا یہ میرے باپ کا سر ہے اور اب ان کے بعد زندگی میں کوئی مزہ نہیں۔ مختار نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو اور تم زندہ بھی نہیں رہو گے۔پھر اسے بھی قتل کر دیا اور کہاباپ کا سر حسینؓ کا بدلہ ۔اور بیٹے کا سر علی اکبرؓ کا بدلہ ۔اگرچہ یہ دونوں انؓ کے برابر کبھی نہیں ہو سکتے۔خدا کی قسم! میں اگر قریش کے تین دستے بھی قتل کر ڈالوں تب بھی وہ حسین ؓ کی انگلیوں کے برابر نہیں ہو سکتے۔پھر مختار نے ان دونوں کے سر حضرت محمد بن حنفیہ ؓ کے پاس بھیج دیے۔
خولی بن یزید کا قتل:
خولی ان بد بختوں میں شامل ہے جنہوں نے امام ِ عالی مقام ؓ کے سرِ انور کو جسم ِ اقدس سے جدا کرنے میں ساتھ دیا تھا۔مختار نے اپنے کوتوال ابوعمرہ کو چند ساتھیوں کے ساتھ اس کی گرفتاری کے لیے بھیجا۔ ان لوگوں نے آ کر خولی کو گھر سے گھیر لیا ۔جب اس بد بخت کو معلوم ہوا تو وہ اپنی کوٹھری میں چھپ گےا اور بیوی سے کہہ دیا کہ تم لاعلمی ظاہر کر دینا ۔کوتوال نے اس کے گھر کی تلاشی کا حکم دیا ۔اس کی بیوی باہر نکل آئی۔ اس سے پوچھا گےا کہ تمہارا شوہر کہاں ہے؟ چونکہ جس وقت خولی امامِ حسینؓ کا سر لایا تھا وہ اس کی دشمن ہو گئی تھی ۔اس نے زبان سے تو کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے مگر ہاتھ کے اشار ے سے اس نے چھپنے کی جگہ بتا دی۔سپاہی اس مقام پر پہنچے اور دیکھا کہ سر پر ایک ٹوکرا رکھے زمین سے چپکا ہوا ہے۔ اس کو گرفتار کر کے لا رہے تھے کہ مختار کوفہ کی سیر کے لیے نکلا ہوا تھا راستے میں مل گےا۔اس نے حکم دیا کہ خولی کے گھر والوں کو بلا کر ان کے سامنے شاہراہ ِ عام پر اس کو قتل کیا جائے۔پھر اس کو جلایا گےا اور جب تک اس کی لاش جل کر راکھ نہیں ہو گئی مختار کھڑا رہا۔
شمر کا قتل :
مسلم بن عبد اللہ ضیابی کا بیان ہے کہ جب حضرت حسین ؓ کے مقابلے میں کربلا جانے والوں کو پکڑ پکڑ کر مختار قتل کرنے لگا تو ہم اور شمربن ذی الجوشن تیز رفتا ر گھوڑوں پر بیٹھ کر کوفہ سے بھاگ نکلے۔مختار کے غلام زربی نے ہمارا پیچھا کیا ۔ہم نے اپنے گھوڑوں کو بہت تیز دوڑایا مگر زربی ہمارے قریب آگےا۔شمر نے ہم سے کہا کہ تم گھوڑے کو ایڑ دے کے مجھ سے دور ہو جاﺅ ۔شاید یہ غلام میری تاک میں آ رہا ہے۔ہم اپنے گھوڑے کو خود تیزی سے بھگا کر شمر سے الگ ہو گئے۔غلام نے پہنچتے ہی اس پر حملہ کر دیا۔ پہلے تو شمر ا سکے وار سے بچنے کے لیے گھوڑے کداتا رہا مگر جب زربی اپنے ساتھیوں سے دور ہو گےا تو شمر نے ایک ہی وار میں اس کی کمر توڑ دی۔جب مختار کے سامنے زربی لایا گےا اور اس کو واقعہ معلوم ہوا تو اس نے کہا کہ اگر یہ مجھ سے مشورہ کرتا تو میں کبھی اس کو شمر پر حملہ کرنے کا حکم نہ دیتا۔
زربی کو قتل کرنے کے بعد شمرکلطانیہ گاﺅں پہنچا جو دریا کے کنارے واقع تھا ۔اس نے گاﺅں کے کسان کو بلا کر مارا پیٹا اور اسے مجبور کیا کہ میرا یہ خط مصعب بن زبیر کے پاس پہنچاﺅ۔ اس خط پر یہ پتا لکھا ہوا تھا ۔شمرزالجوشن کی طرف سے امیر مصعب بن زبیر کے نام۔ کسان اس خط کو لے کر روانہ ہوا۔ راستے میں ایک بڑا گاﺅں آباد تھا ۔جہاں کوتوال ابو عمرو چند سپاہیوں کے ہمراہ جنگی چوکی قائم کرنے کے لیے آیا ہوا تھا ۔ یہ کسان اس گاﺅں کے ایک کسان سے مل کر، شمر نے جو اس کے ساتھ زیادتی کی تھی، اس کو بیان کر رہا تھا کہ ایک سپاہی ان کے پاس سے گزرا اس نے شمر کے خط اور اس کے پتہ کو دیکھا توپوچھا کہ شمر کہاں ہے؟ اس نے بتا دیا ۔معلوم ہوا کہ پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ابو عمرہ فوراً اپنے سپاہیوں کو لیے ہوئے شمر کی طرف چل پڑا ۔
مسلم بن عبد اللہ کا بیان ہے کہ میں رات میں شمر کے ہمراہ تھا ۔میں نے اس سے کہا کہ بہتر ہے کہ ہم اس جگہ سے روانہ ہو جائیں ۔اس لیے کہ ہمیں یہاںڈر معلوم ہوتا ہے۔اس نے کہا کہ میں تین دن سے پہلے یہاں سے نہیں جاﺅں گا ۔اور تمہیں خوف غالباََ مختار کذاب کی وجہ سے ہے۔ تم اس سے مرعوب ہو گئے ہو۔ہم جہاں ٹھہرے تھے وہاں ریچھ بہت زیادہ تھے ابھی زیادہ رات نہیں گزری تھی کہ گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز آئی ۔میں نے اپنے دل میں کہا کہ ریچھ ہوں گے۔مگر آواز تیز ہو گئی تو میں اٹھ کر بیٹھ گےا ۔اپنی آنکھوں کو ملنے لگا اور کہا یہ ریچھوں کی آواز ہرگز نہیںہو سکتی۔اتنے میں انہوں نے پہنچ کر تکبیر کہی اور ہماری جھونپڑیوں کو گھیرے میں لے لیا ۔ہم اپنے گھوڑے چھوڑ کر پیدل ہی بھاگے۔اور وہ لوگ شمر پر ٹوٹ پڑے۔شمر جو پرانی چادر اوڑھے ہوئے تھا اور اس کے برص کی داغوں کی سفیدی چادر کے اوپر سے نظر آ رہی تھی ۔وہ کپڑے اور زرہ وغیرہ بھی نہیں پہن سکا ۔اسی چادر کو اوڑھے ہوئے نیزے سے ان کا مقابلہ کرنے لگا۔ ابھی ہم تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ تکبیر کی آواز کے بعد ہم نے سنا کہ اللہ نے خبیث کو قتل کر دیا۔پھر ان لوگوں نے اس کے سر کو کاٹ کر لاش کو کتوں کے لیے پھینک دیا۔

ابن زیادکا قتل:
عبد اللہ بن زیاد وہ بد بخت انسان ہے جو یزید کی طرف سے کوفہ کا گورنر مقرر کیا گےا تھا۔اس بد بخت کے حکم سے حضرت اما م ؓ اور آپ کے اہل ِ بیت کو تمام تکلیفیں پہنچائی گئیں ۔یہ ابن زیاد موصل میں تیس ہزار فوجیوں کے ساتھ اترا۔مختار نے ابراہیم بن مالک اشتر کو اس کے مقابلے کے لیے ایک فوج کولے کر بھیجا ۔موصل سے تقریباً پچیس کلو میڑ کے فاصلے پر دریائے ِ فرات کے کنارے دونوں لشکروں میں مقابلہ ہوا ۔اور صبح سے شام تک خوب جنگ ہوئی۔جب دن ختم ہونے والا تھا اور سورج غروب ہونے والا تھا اس وقت ابراہیم کی فوج غالب آئی ۔ابن زیاد کو شکست ہوئی اور اس کے ہمراہی بھاگے۔ابراہیم نے حکم دیا کہ فوج مخالف میں سے جو بھی ہاتھ آئے اس کو زندہ نہ چھوڑا جائے۔چنانچہ بہت سے ہلاک کیے گئے۔اس ہنگامے میں ابن زیاد بھی فرات کے کنارے محرم کے مہینے میں ہی مارا گےا۔اور اس کا سر کاٹ کر ابراہیم کے پاس بھیجا گےا۔ابراہیم نے مختار کے پاس کوفہ میں بھجوایا ۔مختار نے دار الامارت کوفہ کو آراستہ کیااور اہلِ کوفہ کو جمع کر کے ابن زیاد کا سر ناپاک اسی جگہ رکھوایا جس جگہ اس مغرور بند ئہ دنیا نے حضرت امامِ حسینؓ کا سر مبارک رکھا تھا۔مختار نے اہلِ کوفہ کو خطاب کر کے کہا اے اہلِ کوفہ! دیکھ لو کہ حضرت امامِ حسینؓ کے خون نا حق نے ابنِ زیاد کو نہ چھوڑا ۔آج اس نامراد کا سر اسی جگہ ذلت و رسوائی کے ساتھ رکھا ہوا ہے۔یہ وہی جگہ ہے۔خدا وندِ عالم نے اس مغرور فرعون خصال کو ایسی ذلت و رسوائی کے ساتھ ہلاک کیا کہ اسی کوفہ اور اسی دار الامارت میں اس بے دین کے قتل و ہلاکت پر جشن منایا جا رہا ہے۔
ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ جس وقت ابن ِ زیاد اور اس کے سرداروں کے سر مختار کے سامنے لا کر رکھے گئے تو ایک بڑا سانپ نمودار ہوا ۔اس کی ہیبت سے سب لوگ ڈر گئے۔وہ تمام سروں میں پھرا ۔عبید اللہ بن زیاد کے سر پاس پہنچا تو اس کے نتھنے میں گھس گےا ۔اور تھوڑی دیر ٹھہر کے اس کے منہ سے نکلا ۔اس طرح تین بار سانپ اس کے سر کے اندر داخل ہوا اور غائب ہو گےا۔
جو لوگ بھی حضرت امامِ حسین ؓکے مقابلے میں کربلا گئے تھے اور ان کے قتل میں شریک تھے۔ان میں سے تقریباً چھ ہزار کوفی تو مختار کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔اور دوسرے لوگ طرح طرح کے عذاب میں مبتلا ہوئے۔علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ان میں سے کوئی نہ بچا جس نے آخرت کے عذاب سے پہلے اس دنیا میں سزا نہ پائی ہو۔ان میں سے کچھ تو بُری طرح قتل کیے گئے۔کچھ اندھے اور کوڑھی ہوئے اور کچھ لوگ تو سخت قسم کی آفتوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوئے۔
مختار کا دعوی
نبوت:
مختار نے حضرت امامِ حسین ؓ کے قاتلین کے بارے میں بہت شاندار کارنامہ سر انجام دیا۔لیکن آخر میں وہ دعو ی
نبوت کر کے مرتد ہو گےا۔کہنے لگا کہ میرے پاس حضرت جبرائیل ؑ آتے ہیں اور مجھ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی لاتے ہیں۔میںبطور نبی مبعوث ہوا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو جب اس کے دعوی نبوت کی خبر ملی تو آپ ؓ نے اسے ختم کرنے کے لیے لشکر روانہ فرمایا۔جو مختار پر غالب ہوا اور ماہ ِ رمضان ستاسٹھ ہجری میں بد بخت کو قتل کر دیا۔