شہادت امام حسین ؑاور مقام رضا

صبر ، توکل اور رضاکے تین مدارج:
اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندوں کو اپنے مالک کے قرب و وصال اور خوشنودی کی منزلوں کو حاصل کرنے کے لیے جو جد و جہد اور کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ا س کے کئی مراحل ہیں۔صوفیاءکرام نے اس کے تین مراحل ترتیب سے بیان کئے ہیں۔
1 ۔ مرحلہ

صبر
2 ۔ مرحلہ

توکل
3 ۔ مرحلہ

رضا

٭ مرحلہ

صبر
صبر دو طرح کا ہوتا ہے۔
٭ زاہدوں کا صبر
٭ عاشقوں کا صبر

٭ زاہدوں کا صبر
زاہدوں کے صبر کے تین مراتب اور درجات ہیں۔
٭ ایک الصبر للہ
٭ دوسرا الصبر علی اا للہ
٭ تےسرا الصبر مع اللہ
صبر کی یہ تقسیم اور درجات حضرت ابو بکر شبلیؓ کی بیان فرمائی ہے۔جو سید نا حضرت غوثِ اعظم ؒ کے مشائخ میں سے ہیں۔
٭ پہلا الصبر للہ
زاہد ، عبادت گزار ، اور پرہیزگار لوگوں کے صبر کا پہلا درجہ
” الصبر للہ “ یعنی اللہ کے لیے صبر کرنا ہے۔اللہ نے ہمیں بعض کام کرنے کا حکم فرمایا ہے انہیں امر کہتے ہیں۔اسی طرح اللہ نے ہمیں بعض کاموں سے بچنے کا حکم فرمایا ہے۔شریعت نے فرض ، واجب، سنت، مستحب ، اور مباح چیزوں کو حلال کیا ہے۔اور ان پر ثابت قدمی اختیار کرنے کو کہا ہے۔جن چیزوں کو شریعت نے ممنوع قرار دیا ہے اور ان سے ثابت قدمی سے بچے رہنے کی تلقین کی ہے۔حلال راہ پر چلنے اور حرام سے بچتے ہوئے انسان کو کبھی پریشانی ہوتی ہے۔وہ کبھی حلال راہ پر چلتے ہوئے آرام و راحت اور ذاتی فائدہ کو چھوڑتا ہے۔اور کبھی حرام سے بچتے ہوئے اپنے مفاد کو قربان کر دیتا ہے۔حلال پر چلنے اور حرام سے بچنے ، حلال و حرام کے درمیاں تمیز کرنے اور’ امر و نہی ‘ پر عمل کرنے میںانسان کو جو پریشانی اور تکلیف پہنچے اس تکلیف کو ہنس کر برداشت کرنا ” الصبر للہ “ کہلاتا ہے۔مثلاً شریعت نے رزق ِ حلال کھانے اور رزق ِ حرام سے بچنے کا حکم دیا ہے۔چناچہ رزق ِ حلال کی تلاش میں رزق ِ حرام سے بچتے ہو ئے اگر انسان پر تنگی یا فاقہ آ جائے تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کر لینا ہی الصبر للہ ہے۔
٭ لمحہ فکریہ:
الصبر للہ کی اس وضاحت کی روشنی میں ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس صبر کو کس حد تک حاصل کر سکتے ہیں جو زاہدوں کا صبر ہے کیونکہ ہم حلال کو پسند کرتے ہیں مگر صرف اس وقت تک جب تک حلال کی راہ میںکوئی تکلیف نہ آئے۔ہم اپنی دینداری اور پرہیز گاری کا جھنڈا تو اٹھائے پھرتے ہیں مگر صرف اس حد تک جب تک حلال میں اور ہمارے مفاد میں کوئی ٹکراﺅ نہ آئے۔ جہاں ہمارے مفاد اور دین میں ٹکراﺅ آئے وہیں ہماری ساری دینداری اور پرہیز گاری دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ اور ہم اپنے مفاد کو سینے سے لگا کر نظریں پھیر لیتے ہیں۔ حلانکہ یہی وقت آزمائش اور قربانی کا ہوتا ہے تا کہ پتا چلے کہ کون دین کی راہ پر ہے اور کون اپنے مفاد پر نظر رکھتا ہے۔
٭ الصبرعلی اللہ:
زاہدوں کے صبر کا دوسرا درجہ ” الصبرعلی ا للہ “ ہے۔
اللہ کی طر ف سے جو کچھ مقدر ہو اس پر خوش رہنا ، بیماری ہو ےا راحت ، کھانے کو ملے یا فاقہ آئے، خوشی ملے یا رنج، اولاد ملے یا چھن جائے، دنیا دوست ہو یا دشمن ، عزت ملے یا بے وقار ہو جائے۔الغرض جو کچھ اللہ کی بارگاہ میں ملے اس پر خوش ہونا اور صبر کرنا ، تکلیف میں شکوہ نہ کرنا اور خوشی و مسرت میں تکبر سے کام نہ لینابلکہ ہر حال میں اللہ کا شکر اد اکرنا ” الصبرعلی ا للہ “ ہے۔
ہم اگر اپنا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ہم تو اس بازار کے سوداگر ہی نہیں ہیں۔ہماری حالت یہ ہے کہ اگر ہمیں کھانے کو ملتا رہے ، خوشی ، صحت ، مال و دولت ، عزت و آسائش ، راحت و سکون الغرض جو کچھ ہم چاہتے ہیںوہ ہمیں ملتا رہے تو ہم اللہ کے شکر گزار ہوتے ہیں۔بلکہ یہ بہت کم ہوتا ہے کیونکہ نعمتوں کی فراوانی سے ہم تکبر میں آ جاتے ہیں۔اور اگر کوئی نعمت ان میں سے چھن جائے تو ہم شکوہ شکایت میںآ جاتے ہیں۔ہمارا رب تو صرف اس وقت تک اچھا ہے جب تک وہ ہمیں ہماری مرضی کے مطابق عطا کرتا ہے۔ہم اللہ پر بھی اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔اور اسے اپنی منشا ءکے تابع کرنا چاہتے ہیں۔
٭ ایک حکایت :
ایک بزرگ تجارت کرتے تھے ایک دن انہیں خبر ملی کہ جہاز بمع مال ِ تجارت ڈوب گےا۔یہ خبر سن کر انہوں نے چند لمحے سوچ کر کہا ” الحمد للہ “۔پھر کچھ دن بعد خبر ملی کہ وہ خبر صحیح نہیں تھی۔آپ کے جہاز کا سامان بک چکا ہے اور بہت نفع ہوا ہے۔یہ خبر سن کر پھر انہوں نے کہا ”الحمدللہ“۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ حضرت یہ کیا ماجرا ہے کہ جب جہاز ڈوبنے اور نقصان کی خبر سنی تو بھی الحمد اللہ کہا۔ اور جب مال بک گےا اور نفع ملنے کی خبر ملی تو بھی آپ نے الحمدللہ کہا ۔اس پر انہوں نے جواب دیا کہ جب جہاز ڈوب جانے کی خبر ملی تو میں نے فوراً اپنے دل کو دیکھا کہ مال کے چلے جانے پر دل رنجیدہ تو نہیں ہے؟ یہ دل جو اپنے رب کی یاد میں مست تھا ، کہیں اس کی توجہ اس طرف سے ہٹ تو نہیں گئی ؟ جب میں نے دل کو دیکھا تو اس کو لاکھوں کے نقصان کی خبر سن کر بھی نقصان سے بے پرواہ اپنے رب کی یاد میں مست پایا تو دل کی حالت پر شکر ادا کیا۔اس کے بعدجب جہاز کے محفوظ اور نفع ہونے کی خبر آئی تو پھر میں نے اپنے دل کو دیکھا کہ نفع کی خبر سن کر یہ خوش تو نہیں ہو گےا ۔تو میں نے دیکھا کہ میرے دل کو نقصان کی طرح نفع سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔اسے صرف اللہ کی یاد سے خوشی اور دلچسپی ہے۔میں نے جب دل کی یہ استقامت دیکھی تو اس پر پھر اللہ کا شکر ادا کیا ۔
٭ الصبر مع اللہ :
زاہدوں کے صبر کا تیسرا درجہ” الصبر مع اللہ“ ہے۔
اگر معمول کی تکلیفیں اور راحتیں آئیں اور حالات ایک جیسے رہیں تو یہ زاہدوں کے صبر کا دوسرا درجہ یعنی ” الصبرعلی ا للہ “ ہے۔
لیکن اگر زندگی میں کوئی ایسا وقت آ جائے کہ جہاں تکلیف ، مصائب، رنج و غم ، پریشانیاں اور دکھ اک ہجوم کی صورت میں انسان پر حملہ آور ہوںتو انسان غیر معمولی مصائب و الم تلے دب جائے اور مسلسل پریشانیوں کی زد میں رہے۔گویا اللہ کی قضا ءو تقدیر کی چھری چل رہی ہو ، سر پر آرے چلائے جا رہے ہوں یا سینہ گولیوں سے چھلنی ہو رہا ہو۔تو عین ان لمحات میں بھی اللہ کے لیے صابر رہنا ” الصبرمع اللہ “ کہلاتا ہے۔زاہدوں کے صبر کا یہ آخری اور تیسرا درجہ ہے۔
حضرت علیؓ کے اس واقعے سے اس کاپتہ چلتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی دشمن کا نیزہ آپ ؓ کے جسم میں پیوست ہو گےا۔نیزہ اتنا گہرا چلا گےا تھا کہ اس کا نکلنا حضرت علی ؓ کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا۔آپؓ کو اذیت ہونے کا خےال کر کے نیزہ نہ نکالا گےا۔اور یہ طے ہوا کہ جب آپ ؓ اپنے اللہ کے حضور نماز میں کھڑے ہوں گے تو اس وقت نیزہ نکالا جائے۔اس طرح جب حضرت علی ؓ نے نماز شروع کی تو نیزہ نکال لیا گےا۔اور حضرت علیؓ کو تکلیف کا ذرا بھی احساس نہ ہوا۔خون کا فوارہ جاری ہو گےا۔پر آپ ؓ بدستور نماز میں مشغول رہے۔تکلیف کے لمحات میں مطمئن اور خوش رہنا اور صبر کرنا ’الصبر مع اللہ‘ ہے۔
٭ عاشقوں کا صبر
٭ الصبرعن اللہ:
اللہ کے وصال سے محروم ہوتے ہوئے بھی ہجر و فراق کی گھڑیوں میں صبر کرنا عاشقوں کا صبر کہلاتا ہے۔اسے الصبر عن اللہ کہتے ہیں۔
مرد ِ مومن ہر وقت اپنے مولیٰ کی ملاقات و وصال اور اس کے بے نقاب جلوے کا خواہشمند رہتا ہے۔لیکن یہ جلوہ اسے اس وقت نصیب ہوتا ہے جب اس کی روح قفس ِ عنصری سے پرواز کرتی ہے۔اور سارے حجابات کو دور کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کر دی جاتی ہے۔جب تک وصال اورقربت کی یہ گھڑیاں نہ آئیں ۔اس وقت تک محرومیوں کی گھڑیوں میں صابر و شاکر رہنا اور اپنے احوال عشق و محبت ملغوب نہ ہونا ’ الصبر عن اللہ ‘ ہے۔
زاہدوں کا صبر یہ تھا کہ وہ اوامر و نہی کی پیروی کریں ۔تکلیف ، مصیبت اور اذیت کے انتہائی لمحوں میں صابر و شاکر رہیں مگر عاشقوں کا صبر یہ ہے کہ محبوب ِ حقیقی سے وصال اور محرومی اور ہجر و فراق کے لمحوں میں صبر کریں ۔صبر کی یہ کیفیت زاہدوں کے صبر کی کیفیت سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہے۔کیونکہ عاشق ہر چیز برداشت کر لیتے ہیں ان کے لیئے فرحت و سکون، ےا اذیت و مصیبت یکساں ہے۔اوامر و نہی پہ عمل ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔وہ سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں ۔لیکن اگر کوئی بات وہ گوارا نہیں کر سکتے تو یہ محبوب کے وصال سے محرومی ہے۔ ہجر و فراق کی گھڑی عاشق پر بھاری ہوتی ہے۔
٭ مشکل ترین صبر:
کہا جاتا ہے کہ ایک شخص شبلی ؒکے پاس گےا۔اور آپؒسے پوچھا کہ کون سا صبر ، صبر کرنے والوں پہ سب سے مشکل اور گراں ہے؟ حضرت شیخ شبلی ؒ نے فرمایا ” الصبر فی اللہ“( اللہ کے سوا سب سے رک جانا )اس شخص نے کہا نہیں۔ آپ ؒ نے فرمایا ”الصبرللہ “ اس شخص نے کہا جی یہ بھی نہیں ۔ یہ سن کر شیخ شبلی ؒ کہنے لگے پھر تم ہی بتاﺅ وہ کون سا صبر ہے ؟اس شخص نے کہا وہ ”الصبر عن اللہ “ ہے۔
روای کا بیان ہے کہ جواب سن کر شیخ شبلی ؒ نے اتنی زور سے چیخ ماری کہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ان کی جان نکل جائے گی۔ ( عوارف المعارف، شیخ شہاب الدین سہروردی )
یہ ہے بھی حقیقت کہ اپنی کٹھن منزلوں کے اعتبار سے عاشقوں کے صبر کے مقابلے میں عبادت گزاروں کا صبر کو ئی حقیقت نہیں رکھتا۔
حضرت مولانا غوث علی شاہ ؒ پانی پتی نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک شخص کسی عاشق درویش کی خدمت میں جاتا ان کی صحبت میں بیٹھا رہتا اور اپنی کوئی مراد یا حاجت پیش نہ کرتا ۔ایک روز درویش پوچھنے لگا کہ تم روزانہ آتے ہو اور بیٹھ کر چلے جاتے ہو۔ہر کوئی اپنی مراد یاحاجت کہتا ہے تم کبھی کچھ نہیں کہتے۔آخر تم کس لیے آتے ہو؟ وہ شخص کہنے لگا کہ حضور میں تو عشق کی چنگاری لینے آتا ہوں ۔میں فقط یہ چاہتا ہوں کہ مجھے عشق کی آگ لگ جائے۔یہ سن کر وہ درویش چپ ہو گےا۔کچھ دن بعد انہوں نے دوبارہ پوچھا اس شخص نے کہا کہ میرا تو بس ایک ہی مطالبہ ہے۔وہ بزرگ درویش چپ ہی رہے۔اس طرح کچھ دن بعد انہوں نے پھر پوچھا تو اس شخص نے اپنا وہی مطالبہ دہرایا کہ مجھے عشق کی چنگاری چاہیے۔اور کچھ نہیں۔اس پر وہ بزرگ فرمانے لگے کہ کل جنگل میں فلاں جگہ جانا وہاں ایک شخص پڑا ہوا نظر آئے گا مجھے آ کر اس کا حال بتانا ۔اگلے دن وہ شخص جنگل کے اس مقام پر گےا ۔وہاں اس نے دیکھا کہ ایک شخص پڑا ہوا تھا ۔جس کا سر بازو اور ٹانگیں دھڑ سے جدا پڑی تڑپ رہیں ہیں۔یہ حالت دیکھ کروہ شخص واپس اس بزرگ کے پاس آےا اور لوگوں کے جانے کے بعد بزرگ سے کہنے لگاکہ میں نے دیکھا ہے کہ اس شخص کا ہر عضو دھڑ سے جدا ہے اور تڑپ رہا ہے۔یہ سن کر درویش نے کہا کہ عاشقوں کا یہ حال ہوتا ہے اگر یہ حال قبول ہے تو عشق کی چنگاری دے دیتے ہیں۔
وہ لوگ جو عشق و محبت کا دعوی نہیں کرتے اس سے محبوب اور طرح سے پیش آتا ہے اور جب وہ عشق و محبت کا دعوی کریں تو محبوب کا وطیرہ بدل جاتا ہے۔اور وہ اور طرح سے آزماتا ہے۔انہی عشق ومحبت والوں کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ :
” اور ہم تم کو کچھ خوف سے ، کچھ بھوک سے ، کچھ مالوں سے ، جانوں اور پھلوں کے نقصان سے آزمائیں گے۔“(البقرة
جوعشق و محبت کا دعوی کرتے ہیں انہیں آزمائشوں کی بھٹی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔اور خوف اور بھوک کے ساتھ جان و مال اور دوسری نعمتوں میں کمی کر کے آزمایا جاتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ لوگ اپنے دعوی محبت میں کہاں تک سچے ہیں۔
٭ صابرین کی جزا:
اوامر و نہی پر عمل کرتے ہوئے تکلیف برداشت کرنا ، ہر قسم کی خوشی اور غم پر صبر کرنا، بڑے بڑے مصائب کو برداشت کرنا ، محبوب ِ حقیقی سے وصال کی محرومی اور ہجر و فراق کے لمحوں میں صبر کرنا، الغرض صبر کے تمام مراحل اللہ کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہیں ۔اس لیے صابرین کی جزا بیان کرتے ہوئے قرآن ِ پاک کہتا ہے ۔
” بےشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“ ( ا لبقرہ۲:۳۵۱)
یعنی وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں انہیں اللہ کی معیت ( ساتھ ) نصیب ہو جاتی ہے۔
بلکہ اس سے بھی بڑھ کے ارشاد فرمایا :
” اپنے لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے نوازشیں ہیں اور رحمت ہے“
(البقرہ )
صبر کرنے والوں پر اللہ کی رحمت نچھاور کی جاتی ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں تکلیف برداشت کر کے صبر پر پورا اترتے ہیں ۔ہر قسم کے جان و مال کے خوف کی مشکل منزلوں سے گزرتے ہیں ۔جو زندگی کی ہر محبوب چیز لٹا دیتے ہیں ۔مگر اللہ کی خوشنودی کے حصول کی منزل ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی۔یہ لوگ اس بات کے مستحق ہو جاتے ہیں کہ ان پر رحمتوں کا نزول ہو۔
٭ مرحلہ

صبر کے بعد مرحلہ
توکل :
جب انسان صبر کے مرحلے سے آگے بڑھتا ہے تو ” مقام ِ توکل “ میں داخل ہو جاتا ہے۔
شیخ ابو علی الرود باری ؒ نے توکل کے تین مدارج بیان کیے ہیں۔
۱۔ پہلا درجہ عطا پر شکر اور منع پر صبر
۲۔ دوسرا درجہ منع اور عطا کا ایک ہو جانا
۳۔ تیسرا درجہ منع پر شکر کا محبوب ہو جانا
۱۔ پہلادرجہ : عطا پر شکر اور منع پر صبر
صبر کی منزل طے کرنے کے بعد توکل کا جو درجہ شروع ہوتا ہے وہ ” عطا کیے جانے پر شکر اور رد کیے جانے پر صبر “
یعنی جب بندے کو نعمت ملے تو بندہ شکر بجا لائے اور نعمت چھن جانے پر صبر کرے۔
۲۔ دوسرا درجہ : منع اور عطا ایک ہو جانا
توکل کا دوسرا درجہ ہے کہ بندہ اس طرح ہو جائے یعنی کہ منع اور عطا اس کے نزدیک ایک ہو جائیں ۔توکل کے اس درجے میں منع اور عطا دونوں باتیں اس بندے کے لیے برابر ہو جاتی ہیں۔
نوٹ: پہلے درجے میں ملنے اور چھن جانے میں فرق تھا کہ بندہ ملنے پر تو اللہ کا شکر ادا کرتا تھا مگر نعمت کے چھن جانے پر صبر کرتا تھا۔
مگر توکل کے اس درجے میں بندہ دونوں صورتوں میں شکر ادا کرتا ہے۔کوئی نعمت ملے بھی تو شکر ادا کرتا ہے اور اگر کوئی نعمت چھن جائے تو بھی شکر ہی ادا کرتا ہے۔
۳۔ تیسرا درجہ: منع پر شکر کا محبوب ہو جانا
توکل کا تیسرا درجہ ہے کہ بندے کے لیے کسی نعمت کے چھن جانے پر شکر کرنا محبوب ہو جانا ۔جب کوئی نعمت چھن جاتی ہے اور بندہ سوچتا ہے کہ محبوب اس چیز کے چھن جانے پر راضی ہے۔ تو یہ تصور کر کے وہ جھوم جھوم اٹھتا ہے۔اور اس نعمت کے چھن جانے پر اسے وہ لذت اور لطف آتا ہے کہ جو کسی نعمت کے عطا ہونے پر نہیں آتا ۔اللہ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے۔ایک تو کبھی عطا کر کے اور دوسرا کبھی چھین کے۔
دوسرے طریقے کے ذریعے اللہ اپنے خاص بندوں کی آزمائش کرتا ہے بندہ جب سوچتا ہے کہ اللہ نے مجھے ایک بڑی آزمائش کے لیے منتخب کیا ہے تو یہ سوچ کر اسے جو مزہ اور کیف و سرور حاصل ہوتا ہے وہ اس خوشی اور مسرت سے کہیں بڑھ کے ہوتا ہے۔جو کسی نعمت کے عطا کیے جانے پر ہوتا ہے۔اس لیے بندے کو نعمت چھن جانے پر اللہ کا شکر اد اکرنا زیادہ محبوب ہو جاتا ہے۔
٭ ایک حکایت:
توکل کی یہ کیفیت کہ جہاں چھن جانے پر زیادہ لطف اور سرور آتا ہے۔اس سے متعلق یہ حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک دفعہ مجنوں کو خبر ملی کہ لیلیٰ بیمار ہے اور طبیبوں نے اس کی صحت یابی کے لیے تازہ خون کی فراہمی کی شرط کو لازمی قرار دیا ہے۔تو مجنوں وہاں پہنچا اور مکمل صحت یابی تک ہر روز وہ اپنا تازہ خون لیلیٰ کو دیتا رہا ۔لیلیٰ نے صحت یابی کے بعد بطور شکرانہ خیرات کرنے کا فیصلہ کیا۔کھانا تیار کر کے اعلان کیا کہ شہر کے فقراءمساکین اور درویش آ کر کھانا کھا لیں ۔مجنوں بھی آ گےا۔جس نے جان پر کھیل کر لیلیٰ کی صحت یابی میں حصہ لیا ۔مجنوں بھی اپنا کاسہ لے کر لائن میں آ گےا۔لیلیٰ سب کو باری باری دیتی جا رہی مگر جب مجنوں کی باری آئی تو اس نے خیرات کے لیے جب اپنا کاسہ آگے کےا تو لیلیٰ نے ہاتھ مار کر اس کا کاسہ گرا کر توڑ دیا اور دوسروں کو خیرات دینے لگی۔مجنوں اپنا کاسہ اٹھائے دیوانہ وار ناچنے لگا۔لوگوں نے کہا کہ یہ تو واقعی پاگل ہے۔لیلیٰ نے سب میں تیری بے عزتی کی اور تو ناچ رہا ہے۔مجنوں نے کہا ارے نادانو! پاگل میں نہیں تم ہو ۔ لیلیٰ کو میری ذات سے کچھ خاص تعلق ہے تبھی تو اس نے میرا کاسہ توڑ دیا ہے۔اور کسی کا کاسہ کیوں نہ توڑا ۔یہ بات لیلیٰ کے میری ذات سے کسی الگ نوعیت کے تعلق کا اظہار ہے۔
یہ تو عشقِ مجازی والوں کا حال ہے ۔ان سے بھی محبوب جب کچھ چھین لیتا ہے تو انہیں زیادہ سرور آتا ہے۔تو ان لوگوں کی خوشی ، کیف و مستی کا کیا عالم ہوتا ہوگا جو عشقِ حقیقی کے مسافر ہیں۔ان سے ان کا محبوبِ حقیقی کوئی نعمت چھین لے تو وہ تو محبوبِ حقیقی کی خصوصی توجہ کے تصور سے ہی جھوم جھوم جاتے ہیں۔ان کی نظر چھینی ہوئی نعمت پر نہیں ہوتی بلکہ محبوب کی خوشی اور رضا پر ہوتی ہے۔
٭ متوکلین کی جزا:
انسان صبر کی منازل اور مدارج طے کرتا ہوا مرحلہ

توکل میں داخل ہوتا ہے۔صبر کے سبب سے بندے کو اللہ کی معیت حاصل ہو چکی ہوتی ہے۔خدائے بزرگ وبرتر کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول بھی اس پر پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے۔لیکن توکل کے سبب سے اسے اللہ کی محبت کی خوشخبری سنائی جاتی ہے ۔قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ
” بیشک اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ ( العمران )
یہ متوکلین کے لیے بشارت ہے کہ اے توکل کرنے والو صبر کی نعمتیں تو تم پہلے ہی اللہ کی بارگاہ سے پا چکے ہو اب توکل کے سبب سے ہم تمہیں اپنی بارگاہ میں محبوب کر لیتے ہیں۔یعنی کہ متوکلین اللہ کی محبت سے سرفراز کیے جاتے ہیں۔
٭ مرحلہ

رضا:
صبر کی منازل اور مدارج طے کرنے کے بعد انسان توکل کی منازل کو بھی عبور کر لیتا ہے۔تو پھرمرحلہ

رضا کا آغاز ہوتا ہے۔بہت سے اولیا ءایسے ہو گزرے ہیں جو مرحلہ
صبر کی مشکل منزلوں میں ہی رک گئے۔کچھ خوش نصیب ایسے بھی ہوئے جنہوں نے صبرکی منزل تو عبور کر لی مگر وہ مرحلہ
توکل میں جا کر رک گئے اور بہت کم ایسے ہوئے ہیں جو صبر کے بعد توکل کی منزل بھی عبور کر گئے۔اور مرحلہ ِ رضا میں داخل ہو گئے۔
توکل کی طرح مرحلہ

رضا کے بھی تین درجے ہیں۔
یہ درجات حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ نے اپنی تصنیف ” غنیة الطالبین“ حضرت شیخ زالنو ن مصری ؒ کے حوالے سے بیان فرمائے ہیں۔
1۔ ترک الاختیار قبل القضائ
2 ۔ سرور القلب بمرالقضائ
3۔ فقدان المرارة بعد القضائ
1۔ ترک الاختیار قبل القضائ:
مرحلہ

رضا کا پہلا درجہ یعنی جب قضا ءکی چھری چلنے لگے اور بچنے کا اختیار بھی ہو تو اختیار رکھتے ہوئے بھی خود کو قضا ءسے نہ بچایا جائے۔
ایک صورت یہ ہے کہ انسان کچھ نہ کر سکے اور ذبح ہو جائے۔ اس مقام کو رضا نہیں کہتے۔رضا تو یہ ہے کہ انسان خود کو بچانے کا اختیار تو رکھتا ہو ، خود کو بچانے پر قادر ہو ، لیکن پھر بھی قضاءکی چھری گوارہ کرے۔
2 ۔ سرورالقلب بمرا لقضائ:
مرحلہ

رضا کا پہلا درجہ تو یہ تھا کہ چھری چلنے سے پہلے کے اختیار کے باوجود بندہ خود کو نہ بچائے۔مگر جب قضاءکی چھری چل رہی ہو ، تقدیر اپنا فیصلہ سنا رہی ہو ، بندے کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیے جا رہے ہوں۔تقدیر اسے تکلیف، مصائب و الم کے پہاڑوں تلے دبارہی ہو، اور ہر قسم کی پریشانیاں اور اذییتیں امڈی چلی آ رہی ہوں ۔مصیبتوں ، تکلیفوں کی انتہا کے باوجود بندہ دل میں سرور و لذت پا رہا ہو۔تو یہ مرحلہ
رضا کا دوسرا درجہ ہے۔
3۔ فقدان المرارة بعد القضائ:
مرحلہ

رضا کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ جب قضا ءکی چھری چل جائے اور سب کچھ لٹ جائے ۔ انسان اپنے انجام کو پہنچ جائے اور کچھ بھی پاس نہ بچے تو یہ کبھی بھول کر بھی زبان پر شکوہ نہ لائے۔کبھی دل میں یہ خیال نہ آئے کہ میرا انجام بظاہر کیسا ناگوار ہوا۔میرے ساتھ کیسے ظلم ہوا اور کتنی تکلیف، مصائب اور الام مجھے برداشت کرنے پڑے تھے۔
٭ مقامِ رضاایک کٹھن منزل :
مقام ِ رضا تک رسائی اور استقامت ایک ایسا مشکل مرحلہ ہے کہ جہاں بڑے بڑے اولیاءکے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری ؒ جو کامل اولیاءمیں سے تھے اور مقام رضا پر فائز تھے ۔ان کے بارے میں ہے کہ قلعہ

ِگوالیار کے گورنر نے کہا کہ شام تک ریاست ِ گوالیار کی حدود سے باہر نکل جائیں ۔جب وہ اپنے خاندان کے افراد اور مریدوں کو لے کر گوالیار سے نکلے تو ہندو لٹیروں نے یہ جان کرکہ اب ہمیں روکنے والا کوئی نہیں ،پیچھے سے حملہ کر دیا اور لوٹ مار شروع کر دی۔حضرت شاہ محمدغوث گوالیار ؒ کے گھوڑے پر ان کے پیچھے ان کی نو سال کی نواسی سوار تھی۔جس کے کانوں میں سونے کی بالیاں تھیں ۔ڈاکو لوٹ مار کرتے ہوئے حضرت کے گھوڑے تک آ پہنچے اور ایک ڈاکو نے آپ ؒ کی نواسی کے کانوں سے بالیاں جب نوچیں تو معصوم بچی کے کان چرگئے۔درد سے بچی کی چیخ نکل گئی۔تو حضرت شاہ محمد غوث گوالیار ؒ سے مقام ِ رضا پر مزید ٹھہرے رہنا مشکل ہو گےا۔اور آپ ؒ نے بے اختیار اپنی چھڑی کو ہوا میں لہرایا تو تمام ڈاکوو
ں کے سر قلم ہو کر زمین پر آ گرے۔اگر وہ چاہتے تو ڈاکوﺅں کے سر قلم کرنے کی کرامت پہلے بھی دکھا سکتے تھے۔اگر چاہتے تو ڈاکوﺅں کو پہلے ہی ختم کر سکتے تھے۔مگر وہ رضا پر ثابت قدم رہے۔مگر جب انہوں نے اپنی معصوم نواسی کی چیخیں سنیں اور اسے خون سے لت پت دیکھا تو مقام ِ رضا پر ان کے قدم ڈگمگا گئے اور انہوں نے اپنی چھڑی لہرا کر ڈاکوو
ں کے سر قلم کر دئیے۔
اس طرح امام نبہانیؒ جامعِ کرامت ِ اولیاءمیں بیان کرتے ہیںکہ شیخ احمد شربینی ؒ ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیںجو کہ مقام ِ رضا پر فائز تھے۔ان کا ایک چھوٹا اکلوتا بچہ تھا ۔جب وہ معصوم اکلوتا بچہ فوت ہونے لگا تو آپؒ کی بیوی آپؒ کی خدمت میں آ کر رونے لگی اور عرض کرنے لگی کہ آپ ؒ کی تو اللہ سے لو لگی رہتی ہے۔مگر میرا اکلوتا بیٹا میری محبت کا مرکز و محور ہے۔ اگر میری گود اس سے خالی ہو گئی تو میرا جینا محال ہو جائے گا ۔اس لیے آپ ؒ میرے بیٹے کے لیے اپنے اللہ کے حضور دعا کریں ۔آپ ؒ نے فرمایا میں اپنے مولا کی رضا پر راضی ہوں ۔اگر میرا مولا میرے بیٹے کی جان لے کر خوش ہے تو میں بھی اس پر خوش ہوں۔آپؒ کی بیوی روتی رہی ، منت سماجت کرتی رہی، مگر آپ ؒ کا دل اللہ کی رضا پرجما رہا۔اسی دوران ملک الموت بچے کی روح قبض کرنے آ گئے۔جب روح قبض کرنے کے لیے ملک الموت نے ہاتھ آ گے بڑھایا اور بچے پر حالتِ نزع طاری ہوئی تو بچے کی یہ حالت شفقت ِ پدری سے نہ دیکھی گئی ۔آپ ؒ کے قدم مقام ِ رضا سے لڑکھڑا گئے۔اس وقت نگاہ اوپر اٹھا کر دیکھا ۔تصرف کا یہ عالم تھا کہ اللہ کی بارگاہ میں صرف التجا کے انداز میں دیکھنے کی دیر تھی کہ لوحِ محفوظ بدل گئی۔آپ ؒ نے ملک الموت سے فرمایااے ملک الموت اپنے رب کی طرف لوٹ جا ،بچے کی موت کا حکم منسوخ ہو چکا ہے۔
٭ حضرت امام حسینؓ اور مقامِ رضا :
حضور ِ اکرم ﷺ کے ایک ولی کا روحانی تصرف یہ ہے کہ اگر وہ چھڑی لہرائے یا نگاہ اٹھائے تو زندگی کو موت یا موت کو زندگی میں بدل دے۔اور حضرت امام حسین ؓکی شان یہ ہے کہ اگر لاکھوں کروڑوںولی ایسے جمع ہو جائیں تو ان کی گرد کو بھی نہ پا سکیں ۔امامِ عالی مقامؓ اگر نگاہ اٹھاتے تو نہ جانے کیا سے کیا ہو جاتا ۔آپؓ اگر چاہتے تو قافلہ

حسین ؓبچ جاتا۔یزیدی لشکر تباہ ہو جاتا ۔ کوفہ و بصرہ میں آپؓ کا اقتدار ہوتا۔مگر یہ سب مقام ِ رضا کے خلاف تھا۔
امتِ مصطفی ﷺ میں بڑے بڑے اولیائے کرام کے قدم مقامِ رضا کی مشکل منزلوں میں ڈگمگائے مگر نواسہ

رسول ﷺ اور جگر گوشہِ بتولؓ کے قدم مقامِ رضا کی منزل پر نہیں ڈگمگائے۔ میدانِ کربلا میں سخت گرمی اور تپتے ریگزار پر شہادت کی کٹھن منزلوں پر آپؓ کامیاب و کامران دکھائی دیئے ۔
آپ ؓ مرحلہ

رضا کے تینوں مدارج پر کامیاب ہیں۔مرحلہ
رضا کا پہلا درجہ یہ تھا کہ علم ہو پھر بھی قضا ءکو قبول کیا جائے۔اور اختیار رکھتے ہوئے خود کو نہ بچایا جائے۔کیوں کہ بہت سی احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے اور امامِ حسینؓ کو بے خبری کی حالت میں شہید نہیں کر دیا گےا۔حضرت امامِ حسین ؓ اپنے بچپن سے جانتے تھے کہ میری شہادت میدانِ کربلا میں لکھی جا چکی ہے اور وہ تو وقت ِ شہادت ، مقامِ شہادت اور احوالِ شہادت تک سے باخبر تھے۔اگر وہ چاہتے تو یزید کے ہاتھ پر بیعت کر کے اپنی قضا ءسے چھٹکارا پا لیتے۔اگر چاہتے تو اللہ سے التجا کر کے اس قضا سے فرار کا راستہ اختیار کر لیتے لیکن آپ ؓ نے ایسا نہیں کیا کہ آپ ؓ عاشقوں میں سے تھے۔آپ ؓ کی زندگی کے کئی برس تو محبوب کے وصال کے انتظار میں بیت گئے تھے۔آپ ؓ نے اپنے بچپن سے اپنے نانا جان ﷺ سے سن رکھا تھا کہ کربلا کے میدان میںرب ِذوالجلال کا بے نقاب نظارہ کرایا جائے گا۔کتنا بڑا صبر تھا کہ آپ ؓ نے پچاس برس کی زندگی ہجر و فراق کی مشکل منازل میں گزار دی۔
آپ ؓ مقامِ رضا کے پہلے مرحلے میں یوں پورے اترے کہ سب کچھ جانتے ہوئے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔یزید کی اتباع کا پیغام ملا مگر آپ ؓ نے قبول نہ کیا اور آپ ؓ کے قدم آہستہ آہستہ میدانِ کربلا کی طرف بڑھتے چلے گئے۔جہاں جامِ شہادت آپؓ کا منتظر تھا۔آپ ؓ نے آگے بڑھ کر جام ِ شہادت نوش کیا۔اور عزم و استقلال کے ساتھ اپنے محبوب ِ حقیقی کی بارگاہ میں جا پہنچے۔مرحلہ

رضا کا دوسرا درجہ کہ جب تقدیر کی چھریاں چل ر ہی ہوں تو بندے کو کڑواہٹ کا احساس نہ ہو بلکہ وہ لذت اور میٹھا پن محسوس کرے۔مقامِ رضا کے اس درجے پر امام ِ عالی مقام ؓ یوں پورے اترتے نظر آتے ہیں کہ ایک لمحے کے لیے بھی ان ؓکی زبان پر شکوہ سنائی نہیں دیا۔آپ ؓ نے دشمنوں سے درخواست و التجا نہیں کی۔چیخ و پکار یا آہ و فغاں کی صدا بلند نہیں ہوئی۔خیموں سے ماتم کی آواز نہیں آئی۔
خاندانِ نبوت کا ہر فرد صبرکا دودھ، توکل کا پانی اور رضا کی خوراک کھا کر جوان ہوا تھا۔یہ کیسے ماتم کر سکتے تھے بھلا ! وہ تو سب خوشی خوشی ایک دوسرے سے آگے بڑھ بڑھ کر خود کو حق کی راہ پر شہادت کے لیے پیش کر رہے تھے۔اور اس طرح خانوادئہ رسول ﷺ کا ایک ایک فرد گردن کٹواتا رہا۔جام ِ شہادت نوش ہوتے رہے اور یہاںتک کہ وہ وقت آ گےا جس کا قدسیان ِ فلک انتظار کر رہے تھے۔نواسہ

رسول ؓ اپنے ساتھیوں کی قربانی دیتے اور سینکڑوں یزیدیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد بلاآخر تیروں اور نیزوں سے جسم چھلنی کروا کر گھوڑے سے نیچے آ گرے۔اس دوران نماز کا وقت ہو گےااور اسی گھڑی کے امامِ عالی مقام ؓ منتظر تھے۔تلوار زمین پر رکھ کر گرم ریت پر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے۔ادھر قاتل کی تلوار گردنِ حسینی ؓ پر لگی۔سرِمبارک تنِقدس سے جدا ہو گےا۔اور ملک الموت نے اللہ کی طرف سے یہ خوش خبری سنائی:
” اے وہ نفس جس نے اطمینان حاصل کر لےا تو اپنے رب کی طرف واپس چل ۔اس طرح کہ تُو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی“ ( سورة الفجر)
اے حسینؓ!تم اپنے امتحانِ رضا میں کامیاب ہو گئے اور تم ہم پر راضی تھے۔ہم تمہاری گردن کٹتے دیکھ کر تم سے راضی ہو گئے۔اب تو رضا با لقضاءکا تاج پہن کر بصد ناز میری بار گاہ میں حاضر ہو جا۔
” پھر تم میرے برگزیدہ بندوں میںشامل ہو جاﺅ اور میری بہشت میں داخل ہو جاﺅ۔(الفجر۹۸: )
حضرت امامِ حسین ؑ رضا کے تیسرے درجے میں بھی کامیاب و کامران رہے۔تیسرا درجہ یہ تھا کہ سب کچھ لٹا دینے کے بعد بھی زبان پر شکوہ نہ آئے اور امامِ عالی مقامؓ تو سب کچھ چھینے جانے کے بعد خوش و خرم اللہ کی بارگاہ اور اپنے نانا جان ﷺ کے قدموں میں پہنچ چکے تھے۔اب انؓ کے لیے تو زبان پر شکوہ لانے یا پریشانی کا تو سوال ہی نہیں تھا۔