حالات زندگی
آپ کے زمانہ میں بغداد میں عباسی خلفاء حکمران تھے۔ جس زمانہ میں امام ابو حنیفہ کوفہ میں تھے قریب قریب اسی زمانہ میں امام مالک مدینہ منورہ میں تھے۔ مدینہ شریف میں رہنے کی وجہ سے اپنے زمانے میں حدیث کے سب سے بڑے عالم تھے۔ انہوں نے حدیث کا ایک مجموعہ تالیف کیا جس کا نام موطا امام مالک تھا۔ امام مالک عشق رسول اور حب اہل بیت میں اس حد تک سرشار تھے کہ ساری عمر مدینہ منورہ میں بطریق احتیاط و ادب ننگے پاؤں پھرتے گزار دی ۔
وہ بڑے دیانتدار اصول کے پکے اور مروت کرنے والے تھے۔ جو کوئی بھی انہیں تحفہ یا ہدیہ پیش کرتا وہ اسے لوگوں میں بانٹ دیتے۔ حق کی حمایت میں قید و بند اور کوڑے کھانے سے بھی دریغ نہ کیا۔
مسئلہ خلق قرآن میں مامون الرشید اور اس کے جانشین نے آپ پر بے پناہ تشدد کیا لیکن آپ نے اپنی رائے تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ہارون الرشید نے ان سے درخواست کی کہ ان کے دونوں بیٹوں امین و مامون کو محل میں آکر حدیث پڑھا دیں مگر آپ نے صاف انکار کر دیا۔
مجبوراَ ہارون کو اپنے بیٹوں کو ان کے ہاں پڑھنے کے لیے بھیجنا پڑا۔ فقہ مالکی کا زیادہ رواج مغربی افریقہ اور اندلس میں ہوا۔ امام مالک کو امام ابو حنیفہ اور امام جعفر صادق سے بھی علم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ نو سو شیوخ سے استفادہ حدیث فرمایا اور فتوی نہ دیا۔ یہاں تک کہ ستر اماموں نے گواہی دی اس امر کی وہ قابل ہیں افتا کے اور اپنے ہاتھ سے ایک لاکھ حدیث لکھیں اور سترہ برس کے سن میں درس حدیث شروع کیا اور جب حدیث پڑھانے بیٹھتے غسل کرتے اور خوشبو لگاتے اور نئے کپڑے پہنتے اور بڑے خشوع خضوع اور وقار سے بیٹھتے سفیان بن عیینہ نے کہا کہ رحم کرے اللہ جل جلالہ مالک پر خوب جانچتے تھے راویوں کو اور نہیں روایت کرتے تھے مگر ثقہ سے اور عبدالرحمن بن مہدی نے کہا کہ امام مالک پر کسی کو مقدم نہیں کرتا ہوں میں صحت حدیث میں اور مالک امام ہیں حدیث اور سنت میں اور کافی ہے امام مالک کی فضیلیت کے واسطے یہ امر کہ امام شافعی ان کے شاگرد ہیں اور امام احمد ان کے شاگردوں کے شاگرد ہیں ۔
اور امام محمد جو شاگرد ہیں امام اعظم کے وہ بھی شاگرد ہیں امام مالک کے ، امام شافعی نے کہا جب ذکر آئے عالموں کا تو مالک مثل ستارہ کے ہیں اور کسی کا احسان میرے اوپر علم خدا میں مالک سے زیادہ نہیں ہے اور کہا سفیان بن عیینہ نے مراد اس حدیث سے کہ قریب ہی لوگ سفر کریں گے واسطے طلب علم کے پھر نہ پائیں گے زیادہ جاننے والا کسی کو مدینہ کے عالم سے امام مالک ہیں اور اوزاعی جب امام مالک کا ذکر فرماتے تو کہتے کہ وہ عالم ہیں علماء کے اور عالم ہیں اہل مدینہ کے اور مفتی ہیں حرمین شریفین کے اور ابن عیینہ کو جب امام مالک کی وفات کی خبر پہنچی تو کہا نہ چھوڑا انہوں نے اپنا مثل زمین پر اور کہا کہ مالک حجت ہیں اپنے زمانے کی اور مالک چراغ ہیں اس امت کے ۔
جب امام مالک نے اس کتاب کو مرتب کیا اس وقت لوگوں کے پاس کوئی کتاب نہ تھی بسوا کتاب اللہ کے اور موطا اس کا نام اس لیے ہوا کہ امام مالک نے اس کتاب کو ستر فقیہوں پر پیش کیا سب نے اس پر موافقت کی امام شافعی نے فرمایا کہ آسمان کے نیچے بعد کتاب اللہ کے کوئی کتاب امام مالک کے موطا سے زیادہ صحیح نہیں ہے اور ابن عربی نے کہا کہ موطا اصل اول ہے اور صحیح بخاری اصل ثانی اور ہزار آدمیوں نے اس کتاب کو امام مالک سے روایت کیا۔ اب یہ جو نسخہ رائج ہے یحییٰ بن یحییٰ مصمودی کی روایت سے ہے جس سال امام مالک کی وفات ہوئی اسی سال یحییٰ بن یحیی نے موطا کو امام مالک سے حاصل کیا سب احادیث اور آثار موطا کے ایک ہزار ستائیس ہیں ان میں سے چھ سو حدیثیں مسند اور دو سو بائیس مرسل اور چھ سو تیرہ موقوف اور دو پچاسی تابعین کے اقوال ہیں ۔