قبول اسلام
نبوت کے پانچویں اور چھٹے سال مسلمانوں نے اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم ﷺ اور دین اسلام کی بے مثال محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وطن، کاروبار، خاندان اور اپنے پیاروں کو چھوڑ کر مکہ مکرمہ جیسے بلد امین سے ہجرت کی تو ایک صحابیہ ام عبد اﷲ بنت ابی حشمہ رضی اﷲ عنہا کو ہجرت کرتے دیکھ کرعمر مشتعل ہوئے کہ خواتین کی ہجرت سے قریش کی شدید بدنامی ہو گی اور پیغمبر اسلامﷺ کو قتل کرنے کے لئے گھر سے نکلے کہ راستے میں ایک صحابی رسول نعیم بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ سے ملاقات ہوئی اپنا مقصد ظاہر کیا تو
حضرت نعیم رضی اﷲ عنہ
نے فرمایا: پہلے گھر کی خبر لو! تمہاری بہن فاطمہ بنت خطاب اور تمہارے بہنوئی سعید بن زید بھی مسلمان ہو چکے ہیں، انتہائی غصے کی حالت میں اپنی بہن کے گھر پہنچے تو گھر کے اندر حضرت خباب بن الارت رضی اﷲ عنہ، حضرت سعید اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہما کو قرآن پڑھا رہے تھے۔ قرآن مجید کی آواز سن کر اور زیادہ مشتعل ہوئے، حضرت خباب اندر چھپ گئے، عمر گھر کے اندر داخل ہوتے ہی اپنے بہنوئی حضرت سعید بن زید رضی اﷲ عنہ کو شدید زدوکوب کرنے لگے، فاطمہ رضی اﷲ عنہااپنے شوہرکو چھوڑانے کیلئے قریب آئیں تو انہیں بھی زخمی کر دیا۔ اسی موقع پر حضرت فاطمہ نے غضب ناک ہو کر فرمایا:
’’اے عمر تیرے دین میں حق نہیں ہے اور کہا: ’’اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ‘‘ عمر نے کہا: مجھے وہ اوراق دکھاؤ جن کی تم تلاوت کر رہے تھے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: تم لوگ غسلِ جنابت نہیں کرتے اور اِن اوراق کو صرف پاک لوگ چھو سکتے ہیں۔ عمر نے طہارت حاصل کی اور ’’طٰہٰo مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی سے لے کر اِنَّنِیْٓ اَنَا اﷲُ لآ اِٰلہَ اِلَّاآ اَنَا فَاعْبُدْنِیْ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِی‘‘(طٰہٰ:۱۴) تک پہنچے تو کہا کتنا حسین بلند اور میٹھا کلام ہے۔ مجھے حضرت محمد(ﷺ) کے پاس لے چلو۔
چنانچہ بارگاۂ ِ نبوت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا۔