دورِ نبوی میں آپکی خدمات وفضائل

اسلام قبول کرنے کے بعد مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور اعلانیہ عبادت اور تبلیغ اسلام کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آپ نے ہجرت مدینہ کے موقع پر اعلانیہ ہجرت کی جبکہ دیگر مسلمانوں نے خفیہ ہجرت کی۔ ہجرت مدینہ کے بعد تمام غزوات میں آپ کو نبی ﷺ نے اپنے ساتھ رکھا اور فرمایا
’’مَا مِنْ نَّبِیٍّ اِلَّا وَلَہٗ وَزِیْرَانِ مِنْ اَھْلِ السَّمَاءِ وَوَزَیْرَانِ مِنْ اَھْلِ الْاِرْضِ۔ اَمَّا وَزِیْرَایَ فِی السَّمَاءِ فَجِبْرَئِیْلُ وَمِیْکَائِیْلُ وَوَزِیْرَایَ فِی الْاَرْضِ فَاَبُوْبَکْرٍ وَّعُمَرُ۔‘‘(جامع ترمذی ومشکوٰۃ المصابیح)

ترجمہ: ’’یعنی ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں سے اور دو وزیر زمین والوں سے ہوتے ہیں لیکن میرے وزیر اہل سماء سے جبرئیل اور میکائیل ہیں اور زمین والوں سے ابو بکر وعمر (رضی اﷲ عنہما)ہیں۔‘‘

رسول اکرم ﷺ آپ پر بے پناہ اعتماد کرتے تھے آپ کی بیٹی حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کو نکاح میں لے کر آپ کو اپنا سسر ہونے کا شرف بھی عطا فرمایا۔
حضرت عبد اﷲ بن حنطب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: حضرت رسول اﷲ ﷺ نے ابو بکر وعمر رضی اﷲ عنہما کو دیکھا تو فرمایا: ’’ھَذَانِ السَّمْعُ وَالْبَصْرُ‘‘ ترجمہ: یہ دونوں میرے کان اور آنکھیں ہیں۔ (ترمذی، مشکوۃ

حضرت ابو بکر وعمررضی اﷲ عنہما نے جنگ بدر کے موقع پر وادی ذفران میں رسول اﷲ ﷺ کو سب سے پہلے اپنی جان کی قربانی پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی اور جنگ بدر میں ہی حضرت عمر فاروق کے غلام مہجع سب سے پہلے شہید ہوئے۔ جنگ تبوک کے موقع پر آپ نے اپنے تمام مال کے دوحصے کئے، ایک حصہ جہاد کیلئے بارگاہ نبوی میں پیش کیا۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے سوال کیا: ’’ھَلْ لِاَحَدٍ مِنْ الْحَسَنَاتِ عَدَدَ نَجُوْمِ السَّمَاءِ‘‘ ترجمہ: کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں؟ فرمایا: ہاں عمر کی نیکیاں۔ تو میں نے عرض کی: ’’اَیْنَ حَسَنَاتُ اَبِیْ بَکْرٍ‘‘ حضرت ابو بکر کی نیکیاں کہاں ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اِنَّمَا جَمِیْعُ حَسَنَاتِ عُمَرَ کَحَسَنۃٍ وَّاحِدَۃٍ مِّنْ حَسَنَاتِ اَبِیْ بَکْر‘‘ ترجمہ: بیشک عمر کی تمام نیکیاں ابو بکر کی ایک نیکی کے مثل ہیں۔