آپ کی سیرت طیبہ کی ایک جھلک
ریاست کے امیر ہونے کے باوجود آپ فقیر صفت، دلق پوش اور بیت المال سے ایک مزدور کے برابر وظیفہ لینے والے حاکم تھے۔ ایک بار قیصرِ روم کا ایلچی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اوریہ دیکھ کر کہ آپ ایک مزدور کے لباس میں مسجد میں سرہانے اینٹ رکھ کر قیلولہ فرمارہے ہیں نہ کوئی سیکورٹی ہے نہ پہرے دار، ایسا متأثر ہوا کہ واپس جا کر پھر مدینہ منورہ آیا اور اسلام قبول کر لیا۔
جب بیت المقدس فتح ہوا تو آپ بیت المقدس تشریف لے گئے قمیص پر 14 پیوند تھے خود پیدل اور خادم گھوڑے پر سوارتھا۔ صحابہ نے اچھا لباس پہننے پر اصرار کیا تو فرمایا اﷲ نے یہ عزت لباس کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کی وجہ سے عطا فرمائی ہے۔

ایک بار رات کو گشت کے دوران ایک بچے کے رونے کی آواز سنی صبح اس بچے کے والد کو مسجد میں طلب کیا اور بچے کے رونے کی وجہ دریافت کی تو بچے کے والد نے بتایا امیر المؤمنین ہم نے بچے کا دودھ وقت سے پہلے چھڑا دیا ہے کیونکہ امیر المومنین بچے کا دودھ چھڑانے کے بعد بچوں کا وظیفہ مقررکرتے ہیں تو آپ بہت روئے اورکہا: اے عمر! تجھ پر افسوس تیرے اس فیصلے کی وجہ سے کتنے بچوں کو وقت سے پہلے دودھ چھڑا دیا گیا ہوگا اسی وقت فیصلہ صادر فرمایا کہ آج کے بعد بچہ پیدا ہوتے ہی اس کا وظیفہ مقرر کر دیا جائیگا۔ آج برطانیہ اور بعض ممالک میں جو بچوں کو وظائف دیئے جاتے ہیں اسے برطانیہ میں عمر لاء(Umar Law)کہا جاتا ہے۔ آپ نے بچوں کے ساتھ اپاہجوں اور بے سہار لوگوں کے وظائف بھی مقرر فرمائے۔

ایک بار مدینہ منورہ میں رات کو گشت فرمارہے تھے کہ ایک مسافر کو پریشان حال دیکھا ساتھ ہی خیمہ سے ایک عورت کے کراہنے کی آواز آرہی تھی بڑا اصرار کیا تو مسافر نے بتایا امیر المؤمنین سے ملنے آئے ہیں رات ہو گئی اور میری بیوی کے ہاں بچہ ہونے والا ہے اوریہاں کوئی جاننے والا نہیں تو اسی وقت اپنی اہلیہ کو ضروری اشیاء وخوراک کے ساتھ لے کر آئے، خیمہ کے اندر سے آپ کی اہلیہ نے آواز دی: اے امیر المؤمنین! آپ اپنے ساتھی کو بیٹے کی خوشخبری دیں تو وہ مسافر یہ جان کر کہ امیر المؤمنین اپنی بیوی کے ہمراہ میرے اہل خانہ کی خدمت کر رہے ہیں انتہائی حیران رہ گیا۔

ایک بار ایک خاتوں اپنی بیٹی کو دودھ میں پانی ملا کر بیچنے کی ترغیب دے رہی تھی اور کہہ رہی تھی: امیر المؤمنین کو دودھ میں پانی ملانے کی خبر نہیں ہو گی یہ کام کر لو تو بیٹی نے کہا: اماں جی! امیر المؤمنین نہیں دیکھ رہے لیکن امیر المومنین کا اﷲ تو دیکھ رہا ہے۔ آپ گشت کے دوران ماں بیٹی کا یہ مکالمہ سن رہے تھے، صبح اپنے بیٹے عاصم کو اس خدا خوف لڑکی سے نکاح کرنے کا مشورہ دیا، چنانچہ ان کے ہاں ایک بیٹی اُم عاصم نامی پیدا ہوئی جس کے بطن سے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز پیدا ہوئے جنہوں نے بنو امیہ کے دورِ حکومت میں حضرت عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کی درویشانہ صفت حکومت کی یادیں تازہ فرما دیں۔

خوفِ خدا کایہ عالم تھا کہ آپ نے ایک مرتبہ فرمایا: اگر آسمان سے آواز آئے کہ ایک شخص کے سوا سب کو بخش دیا گیا ہے توپھر بھی میں روزِقیامت میں حساب وکتاب سے بے خوف نہیں رہوں گا۔ ایک بار کسی نے شہد پیش کی تو منہ کے قریب لا کر منہ سے ہٹا دی فرمایا: اس کی مٹھاس وذائقہ تو ختم ہو جائیگا لیکن اس کا حساب ذمہ سے ختم نہیں ہو گا۔ لہذا کسی اور کو دے دو۔ ایک بار علاج کیلئے شہد کی ضرورت تھی تو مسجد آئے اور شوریٰ سے بیت المال سے تھوڑی سی شہد لینے کی اجازت حاصل کی۔ ایک بار آپ کے پاس چادریں آئیں تو کسی نے کہا: اپنی اہلیہ ام کلثوم بنت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کو ایک چادر بھیج دیں۔ تو فرمایا: اُم سلیط ایک مستحق عورت ہے وہ اس چادر کی زیادہ حقدار ہے۔ اتنی سادہ غذا کھاتے کہ چہرے پر لکیریں پڑ گئیں اور ایک بار قحط پڑا رتو گوشت گھی اور ترکاری سب کچھ بند کر دیا۔ زیتون سے روٹی کھاتے۔ ایک دفعہ ایک حاکم عتبہ بن فرقد نے نفیس حلوہ بھیجا تو واپس کر دیا اور فرمایا: یہ بیت المال کی امانت ہے جب سب لوگ حلوہ کھائیں گے تو پھر امیر المؤمنین کے لئے حلوہ مباح ہو گا۔

آپ نے خلیفہ بنتے ہی اپنی پسندیدہ بیویوں کو طلاق دے دی تاکہ مجھ سے کوئی عورت سفارش نہ کرے۔ جب شاہ ایران یزد جرد کی بیٹی حضرت شہر بانو گرفتار ہو کر آئیں تو اُن کا نکاح اپنے بیٹے کی بجائے حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ سے کیا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے 9بیٹے تھے، کسی کو کسی جگہ گورنرتو کجا منشی بھی مقرر نہ فرمایا۔ بیت المال کا اونٹ گم ہوا تو سخت گرمی میں خود تلاش کرنے نکلے اور کہا اس کا حساب مجھ سے ہونا ہے۔

جنگ بدر میں اپنے ماموں عاص بن ہشام کو قتل کر کے غیرتِ اسلامی کا عظیم مظاہرہ فرمایا، جنگ بدر میں قیدیوں کے بارے میں آپ ہی نے مشورہ دیا کہ ان اعداء اسلام کو قتل کر دیا جائے اور ہر مسلمان اپنے رشتہ دار قیدی کو خود قتل کرے۔
ایک بار کسی نے وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَت(تکویر:10)
ترجمہ: جب نامہ اعمال کے رجسٹر کھولے جائیں گے، پڑھا تو بے ہوش ہوگئے۔
ایک بار فرمایا: کاش کہ میں پیدا نہ ہوتا۔ ایک بار فرمایا: کاش کہ میں انسان کی بجائے ایک تنکا پیدا کیا جاتا۔ کسی نے تلاوت کی:اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ (طور:8)
ترجمہ: تیرے رب کا عذاب ضروروقوع پذیر ہونے والا ہے۔
یہ آیت سن کر سواری سے اترے اور کافی دیر انتہائی پریشان بیٹھے رہے۔ آپ بیوگان اور یتیموں کیلئے پانی خلافت سے پہلے اور بعد از خلافت اپنے کندھوں پر اٹھا کر گھروں میں پہنچاتے۔ ایک بار حضرت عباس کے پرنالے سے ذبح شدہ مرغ کا خون بہہ رہا تھا تو اس پر نالے کو اکھاڑنے کا حکم دیا تاکہ گزرنے والوں کے کپڑے آلود نہ ہوں تو حضرت عباس رضی اﷲ نے فرمایا: یہ وہ پرنالہ ہے جسے رسول اﷲ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے نصب فرمایا تھا تو فوراً فرمایا: اے عباس! میرے کندھے پر کھڑے ہو کر یہ پر نالا اسی جگہ نصب کرو۔