کرامات
مثالی ریاضت ومجاہدہ کی وجہ سے روحانیت کا یہ عالم تھا کہ ایک بار فارس کے دور دراز علاقے ’’نہاوند‘‘ میں مسلمان جہاد کر رہے تھے اور آپ خطبہ جمعہ دے رہے تھے تو فرمایا: ’’یَاسَارِیَۃَ الْجَبَلَ‘‘ ترجمہ: اے ساریہ پہاڑ کے ساتھ ہو جاؤ۔ لوگوں نے کہا: شاید آپ کا ذہن کام نہیں کر رہا تھا۔ آپ نے دوران خطبہ کیا کہہ دیا تو فرمایا: کہ میں نے دیکھا کہ کفار لشکر اسلام کو گھیرے میں لے رہے ہیں تو میں نے فورًا کہا: پہاڑ کی پناہ لے لو تو اﷲ تعالیٰ نے کفار کی سازش ناکام بنادی اور مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار فرما دیا ہے چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد ایک شخص فتح کی خوشخبری لے کر آیا اس نے بتایا کہ ہم نے جہاد
کے دوران حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی آواز سنی تھی اور اس پر عمل کیا تھا تو اﷲ نے فتح عطا فر ما دی۔

حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ نے خط لکھا کہ مصرمیں لوگ ہر سال دریائے نیل میں ایک لڑکی کو بناؤ سنگھار کر کے ڈالتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس رسم کی ادائیگی کے بغیر دریائے نیل میں پانی نہیں چڑھتا۔ امیر المؤمنین حکم فرمائیں کہ کیا کیا جائے؟ تو آپ نے اس کافرانہ رسم کو ختم کرنے کا حکم دیا اور ایک رقعہ لکھا
’’ِمنْ عَبْدِ اللّٰہِ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ عُمَرَ اِلَی نِیْلِ مِصْرَ فَاِنْ کنُْتَ تَجْرِیْ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ فَاِنَّا نَسْئَلُ اِجْرَاکَ مِنَ اللّٰہِ وَاِنْ کنُْتَ تَجْرِیْ مِنْ عِنْدِکَ فَلَاحَاجَۃَ لَنَا بِک۔‘‘
ترجمہ: ’’یہ خط اﷲ کی بندہ امیر المؤمنین عمر بن خطاب کی طرف سے دریائے نیل کے نام ہے اگر تو اﷲ کے حکم سے چلتا ہے تو ہم اﷲ سے سوال کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ تجھے جاری کر دے اوراگرتو خود بہتا ہے تو ہمیں تیری کوئی حاجت نہیں۔‘‘
چنانچہ گورنر مصر بیشمار لوگوں کے ہمراہ امیر المؤمنین عمر کا یہ رقعہ لے کر دریائے نیل پر پہنچے اور رقعہ دریا میں ڈالا
تو دریا میں پہلے سے بہت زیادہ پانی آیا اور کافرانہ رسم ختم ہوئی۔ تاریخ الخلفاء

ایک بار مدینہ شریف کے قریب ایک کنویں سے گیس نکلی تو جنگل میں آگ لگ گئی اور مدینہ منورہ کی طرف پھیلنے لگی تو
امیر المومنین عمر فاروق رضی اﷲ عنہ اپنی چادر سے آگ کو دھتکارتے ہوئے کنویں تک لے گئے اور آگ بجھ گئی

ایک بار زلزلہ آیا تو پاؤں زمین پر مارا اور فرمایا: ’’اے زمین تھم جا کیا میں تجھ پر عدل نہیں کررہا‘‘ تو اسی وقت زلزلہ ختم ہو گیا۔

ایک بار حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ ایک عورت کجھور کی ٹوکری لے کر بارگاۂ ِ نبوی میں حاضر ہوئی اور آپ ﷺ نے حضرت علی کو ایک کجھور عطا فرمائی ہے۔
صبح نماز ِفجر کیلئے حضرت علی رضی اﷲ عنہ مسجد میں آئے تو دیکھا کہ ایک عورت کجھور کی ایک ٹوکری لے کر حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے حضرت علی کو ایک کجھور دی تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے کہا: اے امیر المؤمنین! مجھے ایک کجھوراور دیں تو فرمایا
’’لَوْزَادَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لَزِدْنَاک۔‘‘
ترجمہ: اگر خواب میں رسول اﷲ ﷺ تمہیں زیادہ دیتے تو ہم بھی زیادہ دیتے۔
جس پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حیران رہ گیا کیونکہ میں نے اپناخواب کسی کو بتایا ہی نہ تھا۔