شہادت

اسلام کے دشمنوں خاص کر مسلمان نما منافقوں کو خلافت راشدہ اک نظر نہ بھاتی تھی. يہ منافق رسول اللہ سے بھی دنیاوی بادشاہوں کی طرح یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ بھی اپنا کوئی ولی عہد مقرر کریں گے. ان منافقوں کی ناپاک خواہش پر اس وقت کاری ضرب لگی جب امت نے حضرت ابوبکر کو اسلام کا پہلا متفقہ خلیفہ بنا لیا.
حضرت ابو بکر کی خلافت راشدہ کے بعد ان منافقوں کے سینے پر اس وقت سانپ لوٹ گیا جب امت نے کامل اتفاق سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ اسلام چن لیا.حضرت عمر کے بعد ٱپ کا سریر آراۓ خلافت ہونا بھی ان مسلمان نما منافقوں کے لۓ صدمہ جانکناہ سے کم نہ تھا۔ انھوں نے آپ کی نرم دلی کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور آپ کو شہید کرنے کی ناپاک سازش کی اور ايسے وقت ميں کاشانہ خلافت کا محاصرہ کيا جب اکثر صحابہ کرام حج کے ليے مکہ گۓ ھوۓ تھے۔
آپ نے اپنی جان کی خاطر کسی مسلمان کو مزاحمت کرنے کی اجازت نہ دی. روایوں کی جانب سے یہ بات پورے وثوق سے لکھی گئی ہے کہ اس سانحہ میں ملوث باغیوں میں حضرت ابو بکر کا بیٹا محمد بن ابی بکر بھی شامل تھا . حضرت علی اس صورتحال سے سخت پریشان تھے انہوں نے اپنے دونوں صاحبزادوں حضرب حسن اور حضرت حسین کے ہمراہ کئی صحابہ زادوں جن میں حضرت طلحہ کے صاحبزادوں سمیت حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن زبیر بھی شامل تھے ان سب کو کاشانہ خلافت کی حفاظت پر مامور کیا۔ تاہم اور چالیس روز تک محبوس رہے۔
چالیس روز بعد باغی آپ کے گھر میں داخل ہو گئے اور آپ کو شھيد کرديا.اس دلخراش سانحہ مين آپ کی زوجہ محترمہ حضرت نائلہ رضی اللہ عنا کی انگشت مبارک بھی شھيد ھو گئیں. آپ کی شہادت کے بعد حضرت علی نے خلافت راشدہ کے چوتھے خلیفہ کی حیثیت سے خلافت سنبھالی۔
ابن عساکرزید بن ثابت
سے روایت کرتے ہیں کہ محمد رسول عربی نے فرمایا ایک دن عثمان میرے پاس سے گزرے اور اس وقت ایک فرشتہ میرے قریب تھا جس نے کہا یہ شخص (عثمان) شہید ہو گا۔