2سٹیپ

باطل کے مختلف روپ/شکلیں

سوال1: باطل کے مختلف روپ یا شکلوں کو کن تین طرح کی کیٹگریز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؟ صرف تین نام بتائیں۔

جواب:دنیا،نفس، شیطان

سوال2: باطل کے ان تین روپ کی یا شکلوں کی مختصر تعریف بیان کریں ۔


شیطان
شیطان اللہ کی آگ سے بنائی گئی مخلوق ہے جسکا کام اللہ کے بندوں کو مختلف طرح سے وہم اور وسوسوں میں مبتلا کر کے اللہ کے یقین سے دور کرنا ہے۔ شیطان ہر لمحہ اپنے کام میں سرگرم عمل ہے کہ کسی صورت بھی اللہ کے بندوں کو اللہ سے دور کرتا چلا جائے۔

شیطان باطل کی فوج کا کھلاڑی ہے کہ اس نے اپنا پورا زور اللہ کے بندوں کو نیک عمل سے روکنے کےلئے لگا رکھا ہے۔ یہ پوری کوشش کرتا ہے کہ انسان کے دل میں وسوسے بھر دے ۔جب بھی وہ کسی اچھے عمل کی کوشش کرے تو یہ ہی وسوسے اور سوچیں عمل میں رکاوٹ ڈالتی ہیں کیونکہ شیطان جانتا ہے کہ انسان اپنے اچھے عمل کے ذریعے ہی اللہ کی قربت میں بڑھ سکتا ہے الیے اس کا پورا زور وسوسوں کے ذریعے انسان کو اچھے عمل اور اطاعت الٰہی سے روکنے پر ہوتا ہے۔

شیطان کا کام دماغ پر قابض ہو کر منفی سوچ ڈالنا ،اس پر منفی امیج نقش کرد ینا، اسی کو دہراتے رہنا اور اسی سوچ کے مطابق عمل کروانا ہے تاکہ وہ ہمیں اللہ کے حکم پر عمل سے روک سکے اور یوں ہم نقصان اٹھائیں ۔

شیطان دل میں وہم ،ڈراوے اور شبہات وغیرہ ڈال کے دل میں اللہ کے یقین پر حملہ کرتا رہتا ہے۔ اور جب یقین متزلزل ہو جاتا ہے تو بندہ حق پر کھڑانہیں رہ سکتا ۔

شیطان انسان کا کھلم کھلا دشمن ہے جو کبھی سیدھے رستے پر نہیں چلنے دیتا بلکہ مختلف حربوں سے اسکو بھٹکانا چاہتا ہے۔

شیطان باطل کے روپ میں انسان کا کھلا دشمن ہے۔ انسان کے خون میں گردش کرتا ہے۔ انسان کے دل و دماغ میں برے خیال ڈالتا ہے۔ برائی کی دعوت دیتا ہے۔ برے افعال کی انجام دہی کرا کے تبا ہی پھیلا تا ہے۔

دنیا
دنیا اللہ کی بنائی ایک فانی اور عارضی قیام گاہ ہے جو ہمارے لیے آزمائش کا گھر ہے۔ اب اسکے فانی اور عارضی ہونے پر یقین رکھتے ہوئے اس دنیا کی آزمائشوں سے اگر اللہ کے یقین کے سہارے گزرتے جائیں تو ٹھیک ہے ورنہ یہ ہر روز ہمارے پھنسنے کےلئے نئے نئے اور خوبصورت جال پھینکتی ہے کہ ہم یہیں اسی میں پھنس کر اسے ہی سب کچھ سمجھ کر اپنے اللہ سے دور ہو جائیں ۔

دنیا باطل کا ایک ایسا روپ ہے جو ہمیں اپنے معمولات و معاملات میں اپنی ذاتی خواہشوں کے مطابق عمل کرنے مرضیا ں کرنے پر اکساتا ہے۔ دنیا اپنی عارضی رنگینیوں میں پھنسا کر عارضی مزے کے حصول کےلئے ہمیں اللہ کی اطاعت سے دور کر کے اپنے ہی جال میں الجھائے رکھتی ہے۔ جہاں ہمیں اپنی خواہشات اور مرضیوں کو اللہ کے احکام کے تابع رکھ کر چلنا ہوتا ہے وہاں یہ دنیا ہر طرح کے معاملات میں اپنی مرضیاں کر وا کر اور رضائے الٰہی سے غافل کر کے اپنے رب سے دور کرتی ہے۔

دنیا ایک عارضی قیام گاہ ہے۔ یہاں قیام ہمارا امتحان ہے ۔ اس امتحان کی مدت میں حق پر کھڑے رہنا ہی ہماری آزمائش ہے اور دنیا ہر روپ میں آکر آزمائش میں ناکام کرنے کےلئے ہزاروں ہتھیار استعمال کرتی ہے تاکہ ہم اللہ سے دور ہوں۔
دنیا ہمارے آس پاس کا جیتا جاگتا جہاں ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں ۔ اس کے معاملات اور رنگینیاں ہمیں حقیقت سے دور کر دیتی ہیں اور حق کی منزل اوجھل کر دیتی ہے ۔ اس کی طرف نظر جاتی ہے تو حق کی راہ پر چلنے جذبہ اور لگن کم ہوتی ہے۔

نفس
نفس مثبت اور منفی خواہشات کا مجموعہ ہے ۔اگر ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے حق کی پاور سے اسے لگام ڈال کر صرف اسے مثبت سمت میں چلائے رکھیں تو ٹھیک ہے ورنہ باطل ہمارے اندر کے اس سسٹم کو ہمارے ہی خلاف اس طرح استعمال کرتا ہے کہ اللہ کی بنائی گئی حدود سے تجاوز کرنے کی رغبت دلا کر اس طرف قدم بڑھانے پر اکساتا ہے۔ اور اگر اسکے رغبت دلانے پر ہم ایک بھی قدم بڑھا دیں تو ہر قدم اسی دلدل میں آگے سے آگے کھینچتا چلا جاتا ہے اور اس طرح ہم اپنے ہی نفس کے غلام بن جاتے ہیں۔

نفس باطل کا ایسا روپ ہے کہ جو ہمارے اندر کی چاہتوں کو بڑھاوا دیتا ہے۔ یہ چاہتیں مثبت اور منفی دونوں ہو سکتی ہیں ۔ باطل یہاں نفس کے ذریعے دل کو منفی چاہتوں پھنساتا ہے۔ جس سے ہم اپنا تن من یعنی ظاہری طاقت اور وسائل اور اندر موجود ہر پاور یا انرجی اسی منفی چاہ کے حصول کےلئے لگا بیٹھتے ہیں ۔ اور جو قوت ایمانی موجود ہو تی ہے وہ کم سے کم تر ہونے لگ جاتی ہے۔ نفسانی خواہشات حاوی ہوجاتی ہیں تو باطل سے لڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔

نفس برائی کی طرف مائل کرتا ہے۔ تمام برے افعال نفس کے سبب ہی ہوتے ہیں ۔ نفس کی پیروی ہلاکت کے رستے پر لے جاتی ہے۔

نفس ہمارے اندر منفی خواہشات کو ابھار کر ہمیں ان کے تحت عمل کرنے پر اکساتا ہے تاکہ ہم اسی نفسانیت کا شکار ہو کر اللہ سے غافل ہو جائیں اور باطل کا مقصد پورا ہو جائے۔

نفس ہمارے اندر موجو چاہتوں و خواہشات کی ایسی دلدل ہے جس میں صرف ایک پاﺅں پھنسنے کی دیر ہوتی ہے اور پھر یہ اپنے اندر دھنستا ہی رہتا ہے۔ انسان کو اپنا غلام بنا کر ایسے غافل رکھتا ہے کہ حق کی راہ سے اسکی نظر ہی ہٹتی چلی جاتی ہے۔

نفس کے ذریعے باطل اپنی مرضی کے کام کروا کے ہمیں حق کی راہ سے دور کرتا ہے
۔