آیت نمبر 17 سے اب شروع کرتے ہیں:

* قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ*
*ہلاک ہو انسان کیسا ناشکرا ہے*

مطلب کہ ہلاک ہو وہ بد بخت منکر انسان کیسا نا شکرا ہے جو اتنی عظیم نعمت پا کر بھی اسکی قدر نہیں کرتا۔
اب اس آیت سے عتاب کا رخ براہِ راست ان کفار کی طرف پھرتا ہے جو حق سے بے نیاذی برت رہے تھے۔
اس سے پہلے آغاز سورت سے آیت 16 تک جو خقاب تھا حضور نبی اکرم صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم سے تھا اور عتاب در پردہ کفار پر ہی فرمایا جا رہا تھا۔ ان کا انداز بیان یہ تھا کہ اے نبی ایک طالب حق کو چھوڑ کر آپ یہ کن لوگوں پر اپنی توجہ صرف کر رہے ہیں؟ وہ جو دعوت حق کے نقطہ نظر سے بلکل بے قدر و قیمت ہیں اور جن کی یہ حیثیت نہیں کی آپ جیسا عظیم القدر پیغمبر قرآن جیسی بلند مرتبہ چیز کو ان کے آگے پیش کرے۔

مجاہد کہتے ہیں کے قرآن میں جہاں بھی *قُتِلَ الْإِنسَانُ* کے الفاظ آئے ہیں وہاں انسان سے مراد کافر ہے۔ یعنی یہ انسان جو ہر لمحہ ہمارے احسانات سے بے بہرہ ہو رہا یے لیکن ان کا شکریہ ادا نہیں کرتا بلکہ کفران نعمت کی روش اختیار کر کے نافرمانی اور بغاوت پر آمادہ ہے۔ بندگی کی بجائے کفر و شرک کا پرچم بلند کئے ہوے ہے۔ غارک ہو جائے ایسا انسان جس کا وجود انسانیت کے لئے ننگ و آر ہے۔ اس کا مٹ جانا اس کے باقی رہنے سے کہیں بہتر ہے۔ تو قرآن مجید میں ایسے تمام مقامات پر انسان سے مراد نوعِ انسانی کا ہر فرد نہیں ہوتا بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی نا پسندیدہ صفات کی مذمت کرنا مقصود ہوتا ہے۔ انسان کا لفظ کہیں تو اس لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ نوعِ انسانی کے اکثر افراد میں وہ مذموم صفات پائی جاتی ہیں۔ اور کہیں اس کے استعمال کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ مخصوص لوگوں کو تعین کے ساتھ اگر ملامت کی جائے تو ان میں ضد کا انصر پیدا ہو جاتا ہے۔ اس لیے نصیحت کا یہ طریقہ زیادہ موثر ہوتا ہے کہ عمومی انداز میں بات کی جائے۔

*مَا أَكْفَرَهُ*
*وہ کتنا احسان فراموش ہے*

یہ یہاں احساس تعجب کے لئے آیا ہے۔ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو بارگاہِ رسالت کے درویشوں اور فقیروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کی مجلس میں بیٹھنا اپنی حطق خیال کرتے ہیں۔
تفہیم القران میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ کس چیز نے اسے کفر پر آمادہ کیا یے۔ یعنی با الفاز دیگر کس بلبوتے پر یہ کفر کرتا ہے۔ کفر سےمراد اس جگہ حق سے انکار بھی ہے، اپنے محسن کے احسانات کی ناشکری بھی ہے اور اپنے خالق و مالک و رازق کے مقابلےمیں باغیانا روش بھی ہے۔

*مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ*
*اللہ نے اسے کس چیز سے پیدا فرمایا ہے؟*

*مِن نُّطْفَةٍ*
*نطفے میں سے اس کو پیدا فرمایا*

*خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ*
*پھر ساتھ ہی اسکا تعین فرما دیا خواص اور جنس کے لحاظ سے*

*ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ*
*پھر راہ اس کے لئے آسان فرما دی*

یعنی تشکیل کی، ارتقا کی، اور تقمیل کے بعد بطن مادر سے جو نکلنے کی راہ ہے وہ اس کیلئے آسان فرما دی۔ یعنی پہلے تو یہ اپنی حقیقت پر غور کرے کہ کس راستے سے یہ دنیا میں آیا ہے، کس چیز سے وجود میں آیا ہے، کس جگہ اس نے پرورش پائی ہے، کس راستے سے یہ اس دنیا میں آیا ہے اور کس بےبسی کی حالت میں اسکی زندگی کی ابتدا ہوئی ہے۔
یہاں پر قرآن میں یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ لوگ زرا اپنی اصلیت پر غور تو کریں کتنے کم ظرف ہیں یہ لوگ۔ کیا انہوں نے اس نطفہ آب اور اس قطرے پر توجہ نہیں کی جس سے ان کا یہ پتلا تیار ہوا ہے۔ اور شکم مادر میں انکو کس نے پیدا کیا یے؟ وہ کون ہے جس نے ان کے اضاء کی ساخت، اور انکی شکل و صورت کا تعین کیا ہے۔ دماغی صلاحیتوں کا تعین کیا ہے۔

معارف القرآن میں بھی اس حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ یہاں پر تخلیق انسانی کا ذکر فرمایا ہے کہ:
*مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ۔ مِن نُّطْفَةٍ*

اس میں پہلے تو ایک سوال کیا گیا ہے کہ اے انسان تو غور تو کر اللہ تعالی نے تجھے کس چیز سے پیدا کیا؟ اور چونکہ اس کا جواب متعین ہےاس کے سوا کوئی دوسرا جواب ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لئے پھر خود ہی فرمایا ہے۔
*مِن نُّطْفَةٍ*
یعنی انسان کو نطفے سے پیدا کیا ہے۔
پھر فرمایا،
*خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ*
یعنی یہی نہیں کے نطفے سےایک جاندار کا وجود بنا دیا بلکہ اس کو ایک خاص انداز اور بڑی حکمت سے بنایا ہے۔ اس کی قد و قامت اور جسامت اور شکل و صورت ,اعضاء کے طول و ارض اس کے جوڈ بند اور آنکھ ,کان ,ناک وغیرہ کی تخلیق میں ایک اندازہ قائم فرمایا ہے کہ ذرہ اس کے خلاف ہو جائے تو انسان کی صورت بگڑ جائے اود کام کاج بھی مصیبت بن جائے۔

اود لفظ *فَقَدَّرَهُ* سے یہاں یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ انسان جس وقت بطن مادر میں زیر تخلیق ہوتا ہےاس وقت اللہ تعالی اس کی چار چیزوں کی مقدار لکھ دیتے ہیں.
1- ایک وہ یہ کہ وہ کیا کیا اور کیسے کیسے عمل کرے گا .
2- دوسرا اس کی عمر کتنی ہو گی.
3- تیسرا اس کو رزق کتنا ملے گا.
4- چوتھا وہ انجام کار سعید و نیک بخت ہو گا یا شکی بخت ہو گا.
آگے
ثمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ
یعنی حق تعالی نے اپنی حکمت بالغہ سے انسان کی تخلیق بطن مادر کی تین اندھیر یوں اور ایسے محفوظ مقام میں فرمائی کہ جس کے پیٹ میں سب کچھ ہو رہا ہے اس کو بھی اس تخلیق کی تفصیل کی کچھ خبر نہیں ہے۔ پھر یہ زندہ تمام اعضاء سے مکمل انسان جس جگہ میں بنا ہے وہاں سے اس دنیا میں آنے کا راستہ بھی باوجود تنگ ہونے کے حق تعالی کی قدرت کاملہ ہی نے آسان فرما دیا۔

کہ ایک صحت مند بچہ تقریباً چار پانچ پاؤنڈ کا وزنی بچہ صحیح سالم جسم کے ساتھ برآمد ہوتا ہے اور ماں کے وجود کو بھی اس سے نقصان نہیں پہنچتا۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں ۔اس سے مراد یہ ہے کہ اس کا ماں کے بطن سے نکلنے کو آسان بنا دیا۔
ابن جریرؓ کا قول ہے کہ اللہ تعالی کے اس ارشاد:
اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا ﴿ سورہ دھر ۳﴾
*ہم نے دکھایا ہے اپنا راستہ اب چاہے شکر گزار بنے چاہے احسان فراموش کی طرح ہے*

یعنی ہم نےاس راستے کو انسان کیلئے واضح کر دیا اور اس پر عمل کو آسان بنا دیا۔
ثُمَّ السَّبِیۡلَ یَسَّرَہٗ
اس کی ضیاءالقرآن میں اس طرح سے تفسیر بیان کی گئ ہے۔
کہ یہ بڑی جامع آیت ہےاس کے مفہوم میں یہ بات بھی داخل ہے کہ رحم مادر میں سے پروان چڑھایا وہاں سے اس کے باہر نکل آنے کی راہ آسان کر دی۔
اور یہ بھی اس کے مفہوم میں داخل ہے کہ گو نہ گو قوتوں کےاس کے خمیر میں تخم ریزی کی۔جب اسے اس دنیا میں پیدا کیا تو وہ سارے سامان بڑی فیاضی سے مہیا کر دیئے جن کی وجہ سے اس کی امکانی قوتیں عملی جامہ پہن سکیں۔اور ان کا پوری طرح سے ظہور بھی ہو سکے۔

اگر اللہ تعالی ان کی نشونما کے لیے سازگار فضاء اور خوشگوار ماحول مہیا نہ کرتا تو وہ قوتیں ہمیشہ خوابیدہ ہی رہتیں۔ وہ بیج بغیر اگے ضائع ہو جاتے ۔ یہ انسان جو کچھ بھی نظر آ رہا ہے اس کو اس مرتبے تک پہنچانے میں قدرت کے لطف و کرم کا ہاتھ ہے۔
اور اس آیت میں یہ حقیقت بھی بیان کی گئی ہے کہ ابدی فلاح و کامیابی کی منزل کی طرف جانے والی شاہراہ پر نبوت کے چراغ روشن کر کے رکھ دیئے ۔جس سے سالق کو اپنی منزل تک پہنچنا آسان ہو گیا ہے۔
اگر رسالت کی تنویریں راستے کی نشیب و فراز کو روشن نہ کر دیتیں تو انسان کی کیا طاقت تھی کہ وہ بخیر یت منزل تک پہنچ سکتا ۔ وہ کسی نہ کسی فکری گرداب میں ڈبکی کھا رھا ہوتا یا کوئی لغزش اسے کسی تاریک غار میں دھکیل دیتی اور وہ وہیں پر دم توڈ چکا ہوتا ۔
یعنی دنیا میں وہ تمام اسباب و وسائل فراہم کیے جن سے یہ کام لے سکے ورنہ اس کے جسم اور ذہن کی ساری قوتیں بیکار ثابت ہوتیں ۔
اگر خالق نے ان کو استعمال کرنے کیلئے زمین پر یہ سر و سامان مہیا نہ کر دیا ہوتا اور یہ امکانات پیدا نہ کر دیئے ہوتے ۔اور مزید یہ کہ خالق نے اس کو یہ موقع بھی دے دیا کہ اپنے لیے خیر یا شر، شکر یا کفر اور اطاعت یا گناہ کی جو راہ بھی یہ اختیار کرنا چاہے کر سکے۔ اس نے دونوں راستے اس کے سامنے کھول کر رکھ دیئے اور ہر راہ اس کیلیے ہموار کر دی۔ جس پر بھی چلنا چاہے انسان چل سکتا ہے۔

*ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقۡبَرَہٗ ﴿ۙ۲۱﴾*
پھر اسے موت دی,پھر اسے قبر میں دفن کردیا.

یہاں پر اب یے بتایا جا رہا ہے کہ اپنی پیدائش اور اپنی تقدیر کےمعاملے میں نہیں بلکہ اپنی موت کے معاملے میں بھی یہ اپنے خالق کے آگے بالکل بے بس ہے۔ نہ تو اپنے اختیار سے پیدا ہوسکتا ہے اور نہ اپنے اختیار سے مر سکتا ہے اور نہ اپنی موت کو ایک لمحے کیلئے بھی ٹال سکتا ہے۔ جس وقت جہاں جس حال میں اسکی موت کا فیصلہ کردیا گیاہے، اُسی وقت اُسی جگہ اور اُسی حال میں مر کر رہتا ہے,اور جس نوعیت کی قبر اِسکے لئے طے کر دی گئ ہے اُسی نوعیت کی قبر میں یہ دفن ہو جاتا ہے, خواہ وہ زمین کا پیٹ ہو,سمندر کی گہرائیاں یا آگ کا لو, یا کسی درندے کا معدہ۔ انسان خود تو کیا,ساری دنیا مل کر بھی اگر یہ چاہے تو کسی شخص کے معاملے میں خالق کے اس فیصلے کو بدل نہیں سکتا۔ کیونکہ جب تک اُسکی موت کا مقررہ وقت نہیں آتا, تو ہزاروں میں بھی وہ سلامت رہتا ہے۔ بارش کی طرح برستے ہوئے بم بھی اُسکا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔ دشمن کی کوئ سازش اُسکو کوئ گزند نہیں پہنچا سکتی۔ لیکن اگر اسکی موت کا پروانہ جاری ہو جاتا, تو ہزاروں محافظوں کے جھرمٹ میں بھی موت آتی ہے اور اسے اٹھا کے لے جاتی ہے۔ پھر یہ کہیں نہیں بھاگ سکتا, نہ کوئ اُسے بچا سکتا ہے۔ پھر اس کے خالق کی مرضی ہوتی ہے بس یہ اس حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ بے بسی کا یہ عالم ہے اور اُس پر اتنا غرور اور گھمنڈ۔

معرف القرآن میں جو تفسیر بیان کی گئ ہے اس میں تھوڑا اس حوالے سے بیان کیا گیا ہے.

*ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقۡبَرَہٗ ﴿ۙ۲۱﴾*

تخلیقِ انسانی کی ابتدا بیان کی گئ ہے پہلے اور اس کے بعد اب اسکی انتہا موت اور قبر پر ہے۔ تو اسکا ذکر جو ہے,بسلسلہ انعامات فرمایا گیا ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی موت درحقیقت کوئی مصیبت نہیں بلکہ نعمت ہی ہے۔
حدیث میں رسول پاکﷺ نے فرمایا کہ:

*مومن کا تحفہ موت ہے اور اس میں مجموعہ عالم کے اعتبار سے بڑی حکمتیں ہیں۔*

اور *فَاَقۡبَرَہٗ* کے معنی *پھر اسکو قبر میں داخل کیا۔*
یہ بھی ایک انعام ہے کہ انسان کو حق تعالیٰ نے عام جانوروں کی طرح نہیں رکھا کہ مرگیا تو وہیں زمین پر سڑتا اور پھولتا اور پھٹتا رہے بلکہ اُسکا اکرام یہ کیا گیا کہ اسکو نہلا کے, نئے اور پاک صاف کپڑوں میں اسکو ملبوس کر کے ایک احترام کے ساتھ قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مردہ انسان کو دفن کرنا بھی واجب ہے۔

*ثُمَّ اِذَا شَآءَ اَنۡشَرَہٗ ﴿ؕ۲۲﴾*
پھر جب وہ چاہے گا اسے کھڑا کردے گا یعنی دوبارہ زندہ کردے گا۔

اب یعنی اسکی یہ مجال بھی نہیں ہے کہ خالق جب اسے موت کے بعد دوبارہ زندہ کرکےاسے اٹھانا چاہےتو یہ اٹھنے سے انکار کرسکے۔ پہلے جب اسے پیدا کیا گیا تھا تو بھی اس سے پوچھ کر پیدا نہیں کیا گیا تھا,اس سے رائےنہیں لی گئ تھی کہ تو پیدا ہونا چاہتا ہے یا نہیں۔ یہ انکار بھی کر دیتا تو پیدا ہونا تھا اس نے اور ہو کر رہتا۔ اسی طرح دوبارہ پیدائش بھی اسکی مرضی پر موقوف نہیں ہے کہ یہ مر کر اٹھنا چاہے تو اٹھے اور اٹھنے سے انکار کردے تو نہ اٹھے۔ خالق کی مرضی کے آگے اس معاملے میں بھی یہ قطعی بےبس ہے جب بھی وہ چاہے گا اسے اٹھا کر کھڑا کر دے گا اور اسکو اٹھنا ہوگا خواہ یہ راضی ہو یا نہ ہو۔
حضرت ابو سعید خزری رضی تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور پاکﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:

*انسان کے ہر عضو کو مٹی کھا جاتی ہے, سوائے ریڑھ کی ہڈی کے آخر کے, عرض کی یارسول اللہ یہ کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا یہ رائ کے دانے کی مثل ہے اسی سے تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔*

صحیحین کی روایت کے یہ الفاظ ہیں.

*ابن آدم کا ہر عضو بوسیدہ ہوجائے گا,سوائے ریڑھ کی ہڈی کے آخری حصے کے, اسی سے انسان کو پیدا کیا گیا اور اسی سےدوبارہ پیدا کیا جائے گا۔*

*کَلَّا لَمَّا یَقۡضِ مَاۤ اَمَرَہٗ ﴿ؕ۲۳﴾*
یقینًا اس نے پورا نہ کیا جس کا اسےحکم دیا گیا تھا.
یعنی اس نافرمان انسان نے وہ حق پورا نہ کیا جس کا اللہ نے اسکو حکم دیا تھا۔

یہاں حکم سے مراد وہ حکم بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے فطری ہدایت کی صورت میں ہر انسان کے اندر ودیعت کردیا ہے وہ حکم بھی جسکی طرف انسان کااپنا وجود اور زمین سے لے کر آسمان تک کائنات کا ہر ذرہ اور قدرت الہٰی کا ہر مظہر اشارہ کررہا ہے اور وہ حکم بھی جو ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعے بھیجا,انکی بنا پر فرض تو یہ تھا کہ انسان اپنے خالق کی فرماں برداری کرتا اور مخلوق بن کر رہتا مگر انسان نے الٹی نافرمانی کی راہ اختیارکی,اور اللہ کا بندہ ہونے کا جو تقاضا تھا وہ اُس نے پورا نہ کیا۔
ابنِ جرید رحمتُہ اللَّہ علیہ فرماتے ہیں کہ:

*اس نا شکرے انسان نے اللہ تعالیٰ کے ان حقوق کو ادا نہ کیا جو اُن کی جان اور مال میں واجب تھے, اگرچہ انسان تو یہی کہتا ہے کہ میں نے اپنے تمام حقوق کو ادا کردیا ہے۔*

فَلۡیَنۡظُرِ الۡاِنۡسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖۤ ﴿ۙ۲۴﴾
پس انسان کو چاہیے کے اپنی غزا کی طرف دیکھے

اَنَّا صَبَبۡنَا الۡمَآءَ صَبًّا ﴿ۙ۲۵﴾
بیشک ہم نے خوب زور سے پانی برسایا

ثُمَّ شَقَقۡنَا الۡاَرۡضَ شَقًّا ﴿ۙ۲۶﴾
پھر ہم نے زمین کو پھاڑ کر چیر ڈالا

فَاَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا حَبًّا ﴿ۙ۲۷﴾
پھر ہم نے اس میں اناج اگایا

وَّ عِنَبًا وَّ قَضۡبًا ﴿ۙ۲۸﴾
اور انگور اور ترکاری

وَّ زَیۡتُوۡنًا وَّ نَخۡلًا ﴿ۙ۲۹﴾
اور زیتون اور کھجور

وَّ حَدَآئِقَ غُلۡبًا ﴿ۙ۳۰﴾
اور گھنے گھنے باغات

وَّ فَاکِہَۃً وَّ اَبًّا ﴿ۙ۳۱﴾
اور طرح طرح کے پھل میوے اور چارہ

مَّتَاعًا لَّکُمۡ وَ لِاَنۡعَامِکُمۡ ﴿ؕ۳۲﴾
خود تمھارے اور تمھارے مویشیوں کے لئے متاء زیست

یہاں پہ کہا جا رہا ہے کہ جس فراق کو تم ایک معمولی چیز سمجھتے ہو اس پر ذرا غور تو کر کہ یہ آخر پیدا کیسے ہوتی ہے۔
خدا نے اگر یہ تمام اسباب نہ پیدا کئے ہوتے تو انسان کے بس میں یہ تھا کے زمین پر یہ غذا خود پیدا کر لیتا ؟
بارش برستی ہے ، یہاں پہ بیج زمین کا سینہ چیر کے نازک نازک کونپلوں کی صورت میں ظاہر ہو جاتے ہیں ، اگتے ہیں، نش و نما پاتے ہیں ، کھیت میں تمھارے لئے ذخیرے تیار کئے جا رہے ہیں ، کہیں انگوروں کی بیلیں ہیں وہ زمین پر بلکھاتی ہوئی نش و نما پا رہی ہیں ، کہیں تمھارے جانوروں کے لئے چارہ اگتا ہے ، زیتون اور کھجور کے درخت بہاریں دکھا رہے ہیں ، شاداب گھنے باغات ہیں ، رنگا رنگ پھولوں کے درخت ٹہنیاں ہیں جو لدی ہوئی ہیں پھلوں پھولوں کے ساتھ ، گھاس اگ رہی ہے جو تمھارے جانوروں کے کام آتی ہے ۔
تو اس طرح سے اللہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے اپنی رحمت اور قدرت سے تمھارے لئے اور تمھارے حیوانوں کے لئے یہ سامانِ زیست فراہم کر دیا ہے ۔

فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّۃُ ﴿۫۳۳﴾
پھر جب کان پھاڑ دینے والی آواز آئے گی ۔

حضرت عبدالله بن عبّاس ؓ فرماتے ہیں الصَّآخَّۃُ قیامت کے اسماء میں سے ایک اسم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی عظمت کو بیان کیا ہے اور مخلوق کو اس سے ڈرایا ہے ۔
ابنِ جریر (رح) فرماتے ہیں کہ شاید یہ ایک پھونک کا نام ہے جسے سور میں پھونکا جائے گا ۔
امام بروی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد قیامت کے دن کی ایک سخت آواز ہے اسے الصَّآخَّۃُ اس لئے کہا جاتا ہے۔ یہ اپنے شور سے کانوں کو بہرا کر دیتی ہے ۔ اس سے مراد نفخا سانیا ہے جب کہ سب لوگ اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔

پھر اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ

یَوۡمَ یَفِرُّ الۡمَرۡءُ مِنۡ اَخِیۡہِ ﴿ۙ۳۴﴾
اس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا۔

وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیۡہِ ﴿ۙ۳۵﴾
اور اپنی ماں اپنے باپ سے ۔

وَ صَاحِبَتِہٖ وَ بَنِیۡہِ ﴿ؕ۳۶﴾
اور اپنی بیوی اپنی اولاد سے ۔

لِکُلِّ امۡرِیًٔ مِّنۡہُمۡ یَوۡمَئِذٍ شَاۡنٌ یُّغۡنِیۡہِ ﴿ؕ۳۷﴾
اس دن ہر شخص کو ایسی حالت لاھک ہو گی جو اس سے بے پروہ کر دے گی ۔

یعنی اتنی پریشان کن حالت ہو گی کہ ایک دوسرے سے بے پرواہ کر دے گی ۔ یعنی اس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی ماں باپ اور بیوی بچوں سے ۔
وہ انھیں دیکھ رہا ہوگا لیکن اس دن کی ہولناکی اور مصائب کی شدّت کی وجہ سے ان سےدور بھاگے گا ۔
حضرت عکرمہ ؓ فرماتے ہیں کہ خاوند بیوی کو دیکھ کر کہے گا کہ میں دنیا میں تجھ سے کیسا سلوک کرتا تھا ؟ وہ کہے گی تم نے مجھ سے بڑا اچھا سلوک کیا ۔
وہ کہے گا آج مجھے ایک نیکی کی ضرورت ہے اگر وہ تم مجھ کو دے دو تو شاید میں اس ہلاکت سے بچ جاؤں ۔ وہ کہے گی تم نے سوال تو بڑی معمولی چیز کا کیا ہے لیکن میں تمہیں یہ نہیں دے سکتی کیوں کہ میں بھی اسی خوف میں مبتلا ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔
اسی طرح باپ بیٹے سے یہی سوال کرے گا تو وہ بھی یہی جواب دے گا ۔

صحیح حدیث میں شفاعت کے بارے میں ہے کہ قیامت کے دن لوگ رسولوں سے عرض کریں گے کہ وہ اللّه تعالیٰ کے پاس ہماری شفاعت کریں ۔ تو ان میں سے ہر ایک نفسی نفسی کہے گا حتیٰ کہ حضرت عیسیٰ ابنِ مریمؑ بھی فرمائیں گے کہ آج تو صرف اللّه سے اپنے لئے ہی سوال کیا جا سکتا ہے۔ آج تو اپنی والدہ کے لئے بھی میں سوال نہیں کر سکتا ۔ اسی لئے اللّه نے یَوۡمَ یَفِرُّ الۡمَرۡءُ فرمایا ۔

قتادہ (رح) فرماتے ہیں اس دن انسان محبوب سے محبوب تر اور قریب سے قریب تر سے بھی بھاگے گا۔

ارشاد فرمایا ، ان میں سے ہر شخص کو ایسی فکر لاھک ہو گی جو اسے سب سے بے نیاز کر دے گی ۔ اس دن ہر کوئی اپنی مصیبت میں مبتلا ہوگا کسی دوسرے کی کوئی ہوش نہیں ہو گی۔

حضرت عبدالله بن عبّاس ؓ فرماتے ہیں رسول اللّه ﷺ نے ارشاد فرمایا ،
تمہیں میدانِ حشر میں ننگے پاؤں ننگے بدن بے ختن پیدل جمع کیا جائے گا ۔ یہ سن کر آپ ؐ کی ایک زوجہ نے عرض کی کیا ہماری نظریں ایک دوسرے کی شرم گاہ پر پڑیں گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس دن ہر شخص کو ایسی فکر لاھک ہوگی کہ اسے غیر کی طرف دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملے گا۔
اس حدیث کو ابن ابی حاتم رح نے روایت کیا ہے اور نسائی ر ح نے بھی اسے مختلف اسناد سے اس کے قریب قریب الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کی ،
یا رسول اللہ ﷺ میرے والدین آپؐ پر قربان ہوں میں آپ سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھنا چاہتی ہوں ۔ آپﷺ مجھے اس بارے میں آگاہ فرمائیں ۔
آپ ﷺ نے فرمایا اگر مجھے علم ہوا تو میں تجھے آگاہ کروں گا ۔
عرض کی اے اللّه کے نبیﷺ قیامت کے دن لوگوں کا حشر کیسا ہو گا ؟
فرمایا ننگے پاؤں ننگے بدن ۔
اس پر انہوں نے عرض کی ہائے قیامت کے دن ایسا ہو گا ؟
تو آپؐ نے فرمایا ابھی مجھ پر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے تم سنو گی تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ اس دن جسم پر کپڑے کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے ۔
عرض کی وہ کون سی آیت ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا ، لِکُلِّمرِن مِن ھُم۔
یہاں پر ان آیات میں جو بھاگنا بتایا گیا ہے تو بھاگنے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کو جو دنیا میں اسے سب سے زیادہ پیارے تھے مصیبت میں مبتلا دیکھ کر بجائے اس کے کہ انکی مدد کو دوڑے الٹا ان سے بھاگے گا کہ کہیں وہ اسے مدد کے لئے نہ پکار بیٹھیں اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا میں خدا سے بے خوف اور آخرت سے غافل ہو کر جس طرح یہ سب ایک دوسرے کی خاطر گناہ کرتے رہے اور ایک دوسرے کو گمراہ کرتے رہے اس کے برے نتائج سامنے آتے دیکھ کر ان میں سے ہر ایک ایک دوسرے سے بھاگے گا کہ کہیں وہ اپنی گمراہیوں اور گناہ کاریوں کی زمیداری اس پر نہ ڈالے۔

آگے آیت میں ہے ،

وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ مُّسۡفِرَۃٌ ﴿ۙ۳۸﴾
اس دن بہت سے چہرے چمک رہے ہوں گے۔

ضَاحِکَۃٌ مُّسۡتَبۡشِرَۃٌ ﴿ۚ۳۹﴾
مسکراتے ہنستے خوشیاں مناتے ہوں گے۔

وَ وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ عَلَیۡہَا غَبَرَۃٌ ﴿ۙ۴۰﴾
اور بہت سے چہرے ایسے ہوں گے جن پر اس دن گرد پڑی ہو گی۔

تَرۡہَقُہَا قَتَرَۃٌ ﴿ؕ۴۱﴾
ان پر سیاہی چھائی ہو گی۔

اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکَفَرَۃُ الۡفَجَرَۃُ ﴿۴۲﴾
یہی لوگ کافر فاجر ہوں گے۔

اس میں بتایا گیا کہ اس ہولناک دن بھی بعض چہرے ایسے ہوں گے جو چمک رہے ہوں گے خوشی سے ہنس رہے ہوں گے اور ان کے چہروں پر مسرت اور فرحت کے آثار نمایا ہوں گے۔ انھیں کوئی اندیشہ اور فکر نہیں ہوگا۔
یہ جو منظر ہے وہ ساری دنیا دیکھ رہی ہو گی لیکن یہیں بتایا گیا ہے کہ وہ بدنسیب جنھوں نے سرکشی اور سرتابی کرتے کرتے عمریں برباد کر دیں ان کے چہروں پر خاک اڑ رہی ہو گی۔ ان کے چہروں پر سیاہی چھائ ہو گی۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو ساری عمر کفر کرتے رہے اور گناہوں میں مبتلا رہے۔ یعنی کہ اس دن لوگوں کے دو گروہ ہوں گے۔ بعض کے چہرے روشن اور خوش و خرم مسکرا رہے ہوں گے۔ تو وہ اہلِ جنت ہوں گے۔ کچھ کے چہروں پر غبار اور کالک ہو گی۔ سیاہی چھائ ہو گی۔ تو وہ جہنمی ہوں گے۔ رسولﷺ نے فرمایا "قیامت کے دن کافر کا اپنے پسینے میں منہ تک ڈوبا ہوگا۔ اور چہروں پر جبار چھائ ہو گی۔"
پھر آپﷺ نے فرمایا،
"ان کے چہرے سخت سیاح ہوں گے ارشاد فرمایا یہی وہ فاجر اور کافر لوگ ہوں گے ان کے دلوں میں کفر ہو گا اور اعمال میں فسک و فجور۔"

جیسا کہ ایک اور اور جگہ فرمایا گیا ہے،
*وَ لا يَلِدُوا إِلَّا فاجِراً كَفَّاراً*
سورة نوح کی آیت 27 ہے
"اور نہ جنیں گے مگر ایسی اولاد جو بڑی بدکار سخت نا شکر گزار ہو گی۔"
اور اس میں میدان حشر میں مومنین اور کفار کے انجام کا ذکر کر کے یہاں پر سورة ختم کی گئ ہے۔