سورت تکویر مکہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے اور اس میں دو موضوع ہیں ۔ ایک آخرت اور ایک رسالت ہے۔

*اعوذ با اللٰہ من الشیطٰن الرجیم . *بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡم.ِ*

*اِذَا الشَّمۡسُ کُوِّرَتۡ ۪ۙ﴿۱﴾*
جب سورج لپیٹ کے بے نور کردیا جائے گا۔

*وَ اِذَا النُّجُوۡمُ انۡکَدَرَتۡ ۪ۙ﴿۲﴾*
اور جب ستارے گر پڑیں گے۔

*وَ اِذَا الۡجِبَالُ سُیِّرَتۡ ۪ۙ﴿۳﴾*
اور جب پہاڑ جلا دیئےجائےگے.

*وَ اِذَا الۡعِشَارُ عُطِّلَتۡ ۪ۙ﴿۴﴾*
اور جب حاملہ اونٹنیاں بےکار چُھٹی پھریں گیں۔

*وَ اِذَا الۡوُحُوۡشُ حُشِرَتۡ ۪ۙ﴿۵﴾*
اور جب وحشی جانور جمع کر دیئے جائیں گے۔

*وَ اِذَا الۡبِحَارُ سُجِّرَتۡ ۪ۙ﴿۶﴾*
جب سمندر اور دریا ابھار دیئے جائیں گے۔

اس میں جو پہلی آیت ہے۔

*اِذَا الشَّمۡسُ کُوِّرَتۡ ۪ۙ﴿۱﴾*
یاد کرو جب سورج لپیٹ دیا جائے گا,تو حضرت عبداللَّہ بن عباس رضی تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں *کُوِرَت* کا معنی ہےکہ سورج بے نور ہو جائےگا۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی روشنی ختم ہو جائے گی۔ بعدادا سے بھی یہی مروی ہے ,حضرت سعید بن حبیل رضی تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اسکا معنی دھسنا ہے۔ ربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسے اپنے مدار سے پھینک دیا جائے گا۔ ابو صالح رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسے الٹا کردیا جائے گا۔ زین بن اسلم رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ زمین پر گِر جائےگا۔

ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے, *تکویر* کا معنی کسی چیز کو اکٹھا کرناہے, سر کے اوپر پگڑی باندھنے کو بھی تکویر کہتے ہیں اور *کورت* کا معنی یہ ہوگا کہ اسےجمع کر کے لپیٹ دیا جائے گا اور اُس وقت اسکی روشنی ختم ہوجائے گی۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی تعالیٰ عنہ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سورج، چاند اور ستاروں کو اکٹھا ک ۔ کے سمندر میں ڈال دے گا اور پھر اسکے اوپر ایک ہوا چلے گی جو اس میں آگ لگا دے گی۔ رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ اسے لپیٹ کے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ یہاں پہ وقوعِ قیامت کے وقت کی ہولناکیاں جو رونما ہونی ہیں ان کا ذکر کیا جارہا ہے تاکہ لوگ جو غافل ہوئے پھر رہے ہیں انکی آنکھیں کُھلیں۔ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اختیار کریں تاکہ اس روز انہیں اپنے اعمال پر پریشانی اور پشیمانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور یہاں پر جو سورج کا بتایا گیا ہےتو نظامِ شمسی میں سورج کی اہمیت ہے اور یہ کسی سےچھپی ہوئی نہیں ہے۔ جب یہ ابھرتا ہے تو اسکی روشنی کی کرنیں ، اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ساری دنیا کو ایک روشن کردیتی ہیں اور اس کی حرارت سے زمین پر زندگی رواں دواں ہوتی ہے۔ لیکن بتایا جارہا ہے کہ اگر اسکو لپیٹ دیا جائے گا تو اسکی یہ تمام جو روشنی اور حرارت ہے ختم ہو جائےگی اور اس وقت اندھیرا پھیلےگا تو وہ کیسا گہرا اور کیسا خوفناک اور بھیانک ہوگا۔ اُس کا تصور دلایا جارہا ہے یہاں پر اور احساس دلایا جارہا ہے۔

*وَ اِذَا النُّجُوۡمُ انۡکَدَرَتۡ ۪ۙ﴿۲﴾*
اور جب ستارے اپنی کہکشائوں سے گر پڑیں گے۔

اب سورج کے بعد ستاروں کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ تیزی سے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرتے جائیں گے اور وہ قانونِ کشش جو ہر ایک ستارے کو اپن ۔ مقام پر اور ہر ایک سیارے کو اپنے مدار میں روکے ہوئے ہے وہ قانون منسوخ کردیا جائے گا اور ستارے اپنی اپنی جگہ سے ٹوٹ کر بکھرتے جائیں گے۔ بعض نے *انکدرت* کامعنی بےنور ہونا بھی کہاہے۔ یعنی سب ستاروں کی چمک بھی ختم ہوجائے گی۔

*وَ اِذَا الۡجِبَالُ سُیِّرَتۡ ۪ۙ﴿۳﴾*
اور جب پہاڑ غبار بنا کر فضا میں جلا دیئے جائیں گے.

یعنی کہ اس طرح کہ کشش ثقل بھی فنا ہوجائےگی. پہاڑوں کا وزن باقی نہیں رہے گا. ہوا کے جھونکے روئی کے گالوں کی طرح انھیں فضا میں اڑانے لگیں گے اور انجامِ کار یہ ہوگا کہ انکا نام و نشان تک باقی نہیں رہے گا۔

*وَ اِذَا الۡعِشَارُ عُطِّلَتۡ ۪ۙ﴿۴﴾*
اور جب حاملہ اونٹنیاں ںبیکار چُھٹی پھریں گی۔
یعنی انکی کوئی خبرگیری کرنے والا نہیں ہوگا۔

یہاں پر عربوں کو قیامت کی سختی کا تصور دلانے کیلئے یہ بہترین طرزِ بیان تھا کہ جیسے موجودہ زمانہ ہے کہ یہاں پر ٹرک بسیں چلتی ہیں تو اس سے پہلے اہلِ عرب کیلئے اس وقت اونٹنیاں سب سے قیمتی مال ہوتا تھا اور اُس سے زیادہ کوئ بھی مال قیمتی نہیں ہوتا تھا کہ اونٹنی جس وقت بچہ جننے کے قریب ہو, اس حالت میں اسکی بہت زیادہ حفاظت اور دیکھ بھال کی جاتی تھی تاکہ وہ کہیں پر بھی کوئی چرا نہ لے اُسے، یا کہیں پر ضائع نہ ہوجائے، ایسی اونٹنیوں سے لوگوں کا غافل ہو جانا مطلب یہ معنی رکھتا تھا کہ اُس وقت کچھ ایسی سخت آفت لوگوں پہ پڑے گی کہ اُنھیں اپنی اس عزیز ترین مال کا ہوش بھی نہیں رہےگا۔

*وَ اِذَا الۡوُحُوۡشُ حُشِرَتۡ ۪ۙ﴿۵﴾*
اور جب وحشی جانور خوف سے جمع کردیئے جائیں گے۔

دنیا میں جب کوئی عام مصیبت کا موقع آتا ہے تو ہر قسم کے جانور بھاگ کے ایک جگہ اکٹھےہوجاتے ہیں۔ اب اس وقت نہ سانپ ڈستا ہے، نہ شیر پھاڑتا ہے، نہ گدھا دولتّتیاں مارتا ہے, تواُس طرح کہا جارہا ہےکہ اسوقت سارے جانو. بھی اکٹھے ہوجائیں گے اورکوئی کسی کو اُس طرح سے تکلیف اور گزند نہیں پہنچائے گا بلکہ سب دم دبائے اوپر تلےایک جگہ جمع ہوں گے۔

سورة التّكوير, الآيات: ٦

*وإذا البحار سجرت*
اور جب سمندر اور پہاڑ سب ابھار دئے جائیں گے ۔

ضیاء القرآن میں اس کی تفسیر اس طرح کی گئی ہے ۔
جب سمندروں میں پانی کی لہرین نہیں آگ کے شعلے اٹھ رہے ہوں گے ۔
پانی سے شعلوں کا اٹھنا ظاہر ہے حیرت انگیز لگتا ہے ۔ لیکن اگر پانی کے اجزاے ترکیبی پہ نظر ڈالی جاۓ تو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ آگ بھڑکے گی بلکہ حیرت اس پر ہوگی کہ پانی ڈالنے پر آگ بھج کیوں جاتی ہے ۔ پانی دو گیسوں آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مرکب ہے ۔
اس میں سے ایک گیس بھڑکانے والی ہے ۔ دوسری بھڑک اٹھنے والی ہے ۔
اب چاہیے تو یہ تھا جب انکو اکٹھا کیا جاتا تو یہ آگ کی صورت اختیار کر لیں ۔ لیکن قادر مطلق نے انکے مرکب کو پانی کی شکل دے دی اور ان میں آگ بھجھانے کی تاثیر رکھ دی۔
اب قیامت کے دن جب دوسرے تمام جو تقویننی ضابطے ہیں وہ ختم کر دیئے جائیں گے ۔

جیسے سورج چاند پہاڑ وہ کیا سے کیا بن جائیں گے ۔
پانی کے ضابطے کی بھی جو ہے وہ مکمل طور پر نفی کر دی جاۓ گی ۔
آکسیجن اور ہائیڑروجن اپنی اصلی حالت میں لوٹ آئیں گی۔
اور ان کے جو بہت بڑے بڑے ذخائیر جو سمندروں میں پانی کی صورت آج ٹھاٹھیں مار رہے ہیں ۔

وہ بھڑکتے ہوئے شعلے بن جائیں گے ۔
معارف القرآن میں اس کو اس طرح سے تفسیر کیا گیا ہے۔

سورة التّكوير, الآيات: ٦

*وإذا البحار سجرت*

سجیرات تسجیر سے نکلا ہے ۔اس کے معنی آگ لگانے اور آگ بھڑکا نے کے بھی آتے ہیں ۔
حضرت ابنِ عبّاس نے اس جگہ یہی معنی لئے ہیں ۔
اور اس کے معنی بھر دینے کے بھی آتے ہیں ۔
اور گھڈمڈ اور غلط ملت کر دینے کے بھی آتے ہیں ۔
بعض آہمہ تفسیر نے بھی یہی معنی لئے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ ان میں کوئی اختلاف نہیں ۔
پہلے سمندر اور میٹھ ۔ دریاوں کو ایک کر دیا جاۓ گا ۔ درمیان کی رکاوٹیں ختم کر دی جائیں گی ۔جس سے دریائے شور اور شیری انکے پانی غلط ملت ہو جائیں گے اور زیادہ بھی ہو جائیں گے ۔ پھر شمس قمر اور ستاروں کو اس میں ڈال دیا جاۓ گا ۔ پھر اس تمام پانی کو آگ بنا دیا جاۓ گا جو جہنم میں شامل ہو جاۓ گا ۔

سورة التّكوير, الآيات: ٧

*وإذا النفوس زوجت*
اور جب روحیں بدنوں سے ملا دی جائیں گی ۔

تفہیم ال قرآن میں اس کی اس طرح سے تفسیر کی گئی ہے یعنی انسان اسی طرح زندہ کیے جائیں گے جس طرح وہ دنیا میں مرنے سے پہلے جسم اور روح کے ساتھ زندہ تھے ۔

معارف القرآن میں اس کا اس طرح سے بتایا گیا ہے کہ۔

سورة التّكوير, الآيات: ٧

*وإذا النفوس زوجت*
یعنی جب حاضرینِِ محشر کے جوڑے جوڑے اور جھتے بنا دئے جائیں گے ۔

یہ جھتے اور جماعتیں ایمان و عمل کے اعتبار سے ہوں گے کہ کافر ایک جگہ ہوگا مومن ایک جگہ ۔
پھر کافر اور مومن میں بھی اعمال و عادات کا فرق ہوتا ہے ۔تو انکے اعتبار سے کفار میں مختلف قسم کے گروہ ہو جائیں گے ۔
اور مسلمانوں میں بھی یہ گروہ عقیدے اور عمل میں اشتراک کی بنا پر ہوں گے ۔
جیسا کہ بے کہی حضرت نومان بن بشیر رضہ حضرت عمر بن خطاب رضہ سے روایت کی ہے کہ جو لوگ ایک جیسے اعمال کرتے ہوں گے وہ ایک جگہ کر دیئے جائیں گے ۔اعمالِ حسنہ ہوں یا سیہ ہوں ۔
مثلاً اچھے مسلمانوں میں علمِ دین کو جو خدمت کرنے والے علماء ہیں ان کو ایک جگہ اور عبادت کرنے والے اور زاہد ایک جگہ۔ جہاد کرنے والے غازی ایک جگہ صدقہ خیرات میں خصوصیت رکھنے والے ایک جگہ۔ تو اسی طرح بداعمال لوگوں میں چور ڈاکو ایک جگہ، زنا کار فحش ایک جگہ، دوسرے خاص خاص گناھوں میں باہم شریک رهنے والے ایک جگہ ہو جائیں گے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا محشر میں ہر شخص اپنی قوم کے ساتھ ہوگا ۔
لیکن اس طرح اسکو واضح کیا گیا ہے ۔
مگر قومیت نسلی یا بطنی نہیں بلکہ عمل اور عقیدے کے اعتبار سے ہوگی ۔ یعنی نیک عمل کرنے والے ایک جگہ، بد عمل کرنے والے دوسری جگہ ہوں گے ۔
اور اس پر آیات قرآنی کی مدد سے شہادت لی گئی ہے ۔


*وَّ کُنۡتُمۡ اَزۡوَاجًا ثَلٰثَۃً ؕ﴿۷﴾*
یعنی محشر میں لوگوں کے بڑے بڑے تین گروہ ہوں گے ۔
ایک گروہ سابقین اولین کا ہوگا ۔دوسرا اصحاب الجمعیں کا۔ دونوں گروہ نجات پانے والے ہوں گے اور تیسرا گروہ اصحاب الشمال کا ہوگا۔ جو کفار اور فجار پر مشتمل ہوگا ۔

حضرت ابی بن کعب رحمة الله فرماتے ہیں کہ قیامت سے پہلے 6 علامات ظاہر ہوں گی۔ لوگ بازاروں میں خرید و فروخت میں مصروف ہوں گے کہ سورج بے نور ہو جائے گا۔ پھر ستارے بکھر جائیں گے۔ اس کے بعد پہاڑ زمین پر گر جائیں گے۔ اس سے زمین پر زلزلہ برپا ہو جائے گا جس سے جن و انس گھبرا جائیں گے۔ جانور اور پرندے آپس میں گھل مل جائیں گے۔ 10ماہ کی گابن اونٹنیاں آوارہ پھریں گی۔ سمندر کو بھڑکا دیا جائے گا۔ جن کہیں گے کہ ہم تمہیں اسکی خبر دیتے ہیں۔ وہ سمندر کی طرف جائیں گے تو وہ آگ کی طرح بھڑک رہا ہوگا۔ اسی اثنا میں ساتوں زمینیں پھٹ پڑیں گی۔ آسمان کا بھی یہی ہال ہوگا۔ اس کے بعد ایک ہوا آئے گی جو تمام کا خاتما کر دے گی۔ حضرت یزید بن مریم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "قیامت کے دن ستاروں کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا اور ہر وہ چیز جس کی اللہ تعالی کو چھوڑ کر عبادت کی گئی اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ سوائے حضرت عیسی علیہ السلام اور انکی والدہ حضرت مریم کے۔ اگر یہ اپنی عبادت کے کئے جانے پر راضی ہوتے تو انکو بھی جہنم میں ڈال دیا جاتا۔

فرمایا جب پہاڑوں کو اکھیڑ دیا جائے گا۔ ان کے مقامات سے اکھیڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا۔ تمام زمین ہموار میدان بن جائے گی۔ جب 10ماہ کی گابن اونٹنیاں آوارہ پھریں گی۔ حضرت ابی بن کعب رحمة الله فرماتے ہیں مالک ان کو کھلا چھوڑ دیں گے۔
ربی بن خصیم رحمة الله فرماتے ہیں کہ انکا دودھ نہیں دویا جائے گا۔ ظہاق رحمة الله فرماتے ہیں کہ بغیر چرواہے کے آوارہ پھریں گی۔
ان تمام اقوال کا مقصد یہ ہی ہے کہ 10ماہ کی گابن اونٹنی جو اہلِ عرب کی انتہائی مرغوب اور پسندیدہ ہوتی ہے، قیامت کے حولناک مصائب میں آوارہ پھریں گی اور ان کے مالکوں کو انکا زرا ہوش نہ ہوگا۔
"العشار" واحد ہے جسکی جمع "العشرہ" ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ قیامت آنے سے پہلے کی علامتوں میں سے ہے اور بعض مفسریں فرماتے ہیں کہ قیامت ک دن ان اونٹنیوں کے مالک انکو دیکھ رہے ہوں گے لیکن ان میں تصرف نہیں کر سکیں گے۔ بعض کے نزدیک "العشار" سے مراد وہ بادل ہیں جو دنیا کی تباہ و بربادی کے وقت زمین و آسمان کے درمیان ساکن ہوں گے۔
بعض کہتے ہیں کے اس سے مراد عشر والی زمین ہے اور بعض کا قول ہے کہ یہ وہ گھر ہیں جو پہلے آباد تھے پھر اپنے مکینوں سے خالی ہو گئے۔ یہ تمام تفسیر جو ہے یہ تفسیر ابنِ کثیر سے لی گئی ہے اور اسی میں یہ بھی ہے کہ امام ابو عبدللہ قرطبی رحمة الله نے اپنی کتاب "تزکرہ" میں ان تمام اقوال کا ذکر کیا ہے۔

آئمہ سلف صالحین سے صرف یہی قول مروی ہے۔ فرمایا *جب وحشی جانور یکجا کر دیئے جائیں گے*۔
قیامت کے دن وحشی جانوروں کو اکٹھا کر دیا جائے گا۔

ارشاد باری تعالی ہے
سورت العنام آیت 38 میں:
وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم ۚ مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ.
*اور نہیں کوئی جانور چلنے والا زمین پر اور نہ کوئی پرندہ جو اڑتا ہے اپنے دو پروں سے۔ مگر وہ امتیں ہیں تمہاری مانند۔ نہیں نظر انداز کیا ہم نے کتاب میں کسی چیز کو پھر اپنے رب کی طرف اٹھائے جائیں گے۔*

حضرت عبدللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن ہر چیز کو اکٹھا کیا جائے گا یہاں تک کہ مکھیوں کو بھی۔ حضرت قتادہ رحمة الله فرماتے ہیں کہ تمام مخلوق اکٹھی ہوگی۔ اللہ تعالی جو چاہے گا فیصلہ فرمائے گا۔

اکرمہ رحمة الله فرماتے ہیں کہ جانوروں کا حشر انکی موت ہے۔ عبدللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ جن و انس کے علاوہ ہر چیز کا حشر موت ہے۔ صرف ان دونوں کو میدانِ حشر میں پیش کیا جائے گا۔ حضرت ابی بن کعب رحمة الله فرماتے ہیں کہ اس دن جانور آپس میں گڈمڈ ہو جائیں گے۔ ابن جریر رحمة الله فرماتے ہیں کہ صحیح قول یہی ہے کہ انہیں جمع کیا جائے گا۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً ۖ كُلٌّ لَّهُ أَوَّابٌ۔
*اور پرندوں کو وہ بھی تصبیح کے وقت جمع ہو جاتے ہیں۔*

پھر جو ہے کہ جب سمندر بھڑکا دیئے جائیں گے۔ تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک یہودی سے پوچھا کہ جہنم کہاں ہے؟ اس نے کہا سمندر میں۔ آپ نے فرمایا میرے خیال میں یہ سچ کہتا ہے کیونکہ قرآن پاک میں سورۃ الطور آیت 6 میں ارشاد یے:

وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ
*اور سمندر کی جو لبالب بھرا ہے۔*

پھر کہ جب جانیں جسموں سے جوڑی جائیں گی، ہر چیز کو اسی جنس سے ملا دیا جائے گا۔

سورت صافات میں آیت 22 ارشاد باری تعالی ہے:

احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ
*اے فرشتو جمع کرو ان کو جنہوں نے ظلم کیا تھا اور ان کے ساتھیوں کو۔*

حضرت عمر بن خطاب رحمة الله نے خطبہ کے دوران یہ آیت پڑھی اور فرمایا کہ ہر شخص کو اس کے گروہ کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ وہ دو شخص جو ایک ہی قسم کا عمل کریں گے ان کو ان کے عمل کی وجہ سے جنت یا دوزخ میں داخل کیا جائے گا۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: نیک آدمی کو جنت میں نیک آدمی کے ساتھ ملا دیا جائے گا اور بدکار کو جہنم میں بدکار کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔

ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے لوگوں سے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں پوچھا تو وہ خاموش ہو گئے تو آپ نے فرمایا کہ مجھے علم ہے کہ جنت میں ایک شخص کو اس کی مثل کے ساتھ ملا دیا جائے گا اور اسی طرح جہنم میں بھی۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی
احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ
یہ سورت صافات کی آیت جو اوپر بتائی گئی ہے۔