*وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتۡ ۪ۙ﴿۸﴾*
اور جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جاۓ گا۔

*بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ ۚ﴿۹﴾*
کہ وہ کس گناہ کے باعث قتل کی گئی تھی ۔

تفسیر ضیاء القرآن میں اسکو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ عہد جاہلیت میں کئ قبیع اور سندلانا رسمیں رائج تھیں جنہیں وہ بڑے شرح صدر سے انجام دیا کرتے تھے۔
انہی غیر انسانی رسوم میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے ۔اس پر وہ غم زدہ یا پریشان ہونے کی بجاۓ بڑے فخر کا اظہار کیا کرتے تھے ۔ اس ظالمانہ حرکت کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک دفع ربیعہ قبیلے پر انکے دشمنوں نے شب خون مارا۔ ربیعہ کے سردار کی بیٹی وہ اٹھا کر لے گئے ۔جب دونوں قبیلوں کے درمیان صلح ہو گئی ۔تو اس لڑکی کو بھی واپس کر دیا ۔اور اسے اختیار دیا چاہے اپنے باپ کے پاس رہے اور چاہے تو اسیری اور قید میں جس کے پاس رہی تھی اسی کے پاس واپس چلی جاۓ ۔

اس نے اس شخص کے پاس جانا پسند کیا۔ اس کے باپ کو بڑا غصہ آیا اور اسنے اپنے قبیلے میں یہ رسم جاری کر دی کہ جب کسی کے ہاں بچی پیدا ہو تو زمین میں دفن کر دیا جاۓ زندہ تاکہ ان کی ایسی رسوائی نہ ہو ۔ آہستہ آہستہ دوسرے قبائل میں بھی یہ رواج مقبولیت اختیار کرتا گیا اور اس کی کئی وجوہات اور بھی تھیں۔
نمبر ایک تو یہ کہ عام اہلِ عرب کی حالت بڑی خستہ ہوتی تھی۔بچیوں کو پالنا، جوان کرنا اور شادی کرنا وہ اپنے لئے نا قابلِ برداشت بوجھ تصور کرتے تھے۔اس لئے ان کو بچپن میں ٹھکانے لگا دیا کرتے تھے۔
قبائل میں باہمی لڑائی جھگڑے روز کا معمول تھا۔ لڑکے جوان ہو کر ایسی لڑائیوں میں ان کا ہاتھ بٹاتے، لڑکیاں لڑائیوں میں شرکت نہیں کر سکتی تھیں۔ پھر ان کو دشمن کی دست برد سے بچنانے کے لئے انھیں کافی تردد کرنا پڑتا تھا ۔ اسلئے وہ زندہ رکھنا انکو اپنے لئے وبالِ جان سمجھتے تھے۔

دوسرا یہ کہ ان کی جہالت کا یہ بھی سبب تھا کہ وہ کسی کو بھی اپنا داماد بنانا اپنی توہین سمجھتے تھے۔

اس سے بچنے کا یہ آسان طریقہ تھا کہ نہ بچی زندہ ہو، نہ اسے بیاہا جاۓ، نہ کوئی ان کا داماد بنے ۔ وجوہات اگرچہ بہت مختلف اور سی بھی تھی لیکن یہ ظالمانہ رسم عرب کے جاہل معاشرے میں اپنے بہت مظبوط پنجے گاڑ چکی تھی ۔ عام طور پر اسے کوئی معیوب چیز بھی نہیں سمجھا جاتا تھا ظلم بھی نہیں سمجھا جاتا تھا ۔
باپ دادا اپنی اولاد کا مالکِ کل ہے ۔ جسے چاہے زنده رکھے جسے چاہے قتل کردے ۔ کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا بھی کوئی حق نہیں تھا ۔ لیکن اس سنگدل معاشرے میں کوئی کوئی ایسے لوگ موجود تھے جو معصوم بچیوں کو ان کی بےکسی پر اس طرح دیکھ کر بہت پریشان ہوتے تھے اور ان سے جتنا کچھ بھی بن سکتا تھا وہ اس سے دریغ نہیں کرتے تھے۔
حضرت فاروقِ اعظم رضہ اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا زاد بھائی بھی ، ان کا نام تھا زید بن عمرو بن نفیل، انکو جب پتا چلتا کہ فلاں کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے اور وہ اس کو زندہ دفن کرنا چاہتا ہے تو وہ دوڑ کر ان کی طرف جاتے اور اس بچی کی پرورش اور شادی وغیرہ کے اخراجات کی زمہ داری اٹھاتے اور اس طرح اس معصومہ کی جان بچاتے۔

مشہور شاعر فرزوق کے دادا جو تھے انکا بھی یہی معمول تھا ۔علامہ علوسی نے طبرانی کے حوالے سےلکھا ہے کہ اس نے عرض کیا ،
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے زمانہ جہالیت میں بھی نیک کام کیے ہیں کیا مجھےانکا اجر ملے گا؟
میں نے 360 بچیوں کو زندہ در گور ہونے سے بچایا ۔
اور ان میں سے ہر ایک کے اوز ٢ ،٢، ١٠،١٠ ماہی گابن اونٹنیاں اور ایک ایک اونٹ بطور فدیہ انکے باپوں کو دیا تو کیا مجھے اس عمل کا کوئی اجر ملے گا؟
تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس عمل کا اجر تو تجھے مل گیا۔
اللّه تعالی نے تجھ کو اسلام لانے کی توفیق عطا فرمائی اور نعمت ایمان سے تجھے سر فراز کیا۔
لیکن اس ظالمانہ رسم کا پوری طرح قلع کمع اس وقت ہوا جب اللّٰه تعالی کے محبوب رحمت الامین بن کر تشریف لاۓ اور بیٹی کو وہ شان بخش دی کہ وہ باعثِ آر ہونے کی بجاۓ اپنے والدین کے لئے وجہ افتحار بن گئی۔ حضور ﷺ نے اپنے دل آویز ارشادات سے اس غلط فہمی کو اہل عرب کے دل سے نکال دیا کہ بچی ایک ناگوار بوجھ ہے یا خاندان کی ذلت و رسوائی کا سبب ہے۔

یہاں اس آیت کے حوالے سے ضیاء القرآن میں پیارے آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ ارشادات بیان کئے گئے ہیں۔
پہلا ہے کہ،
"جو شخص ان بچیوں کا باپ بننے سے آزمایا گیا اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو وہ اس کے لیے آتشِ جہنم سے پردہ ثابت ہوں گی۔
بخاری و مسلم میں ہے۔

امام مسلم کی روایت ہے کہ،
جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو قیامت کے دن میں اور وہ اس طرح کھڑے ہو گے اور یہ فرمایا آپ ﷺ نے اور اپنی دونوں انگلیوں کو باہم پیوست کر دیا۔

ابو داود کی حدیثِ مبارک ہے کہ:
جس کی ایک بچی ہو اور وہ اسے زندہ درگور بھی نہ کرے اور اس کی توہین بھی نہ کرے، اپنے بیٹے کو اس پہ فوقیت بھی نہ دے تو اس عمل کے بدلے اللہ اسے جنت میں داخل کردے گا۔
تو پیارے آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ جو تعلیمات ہیں ان کی ہمہ گیری کا اندازہ اس حدیثِ مبارکہ کو پڑھ کر بھی ہوتا ہے کہ ،
ابن ماجہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سراقہ بن چشم سے فرمایا:
کیا میں تمہیں سب سے بڑے صدقے سے آگاہ نہ کروں؟
انھوں نے عرض کیا، جی ضرور مہربانی فرمایئے۔
تو پیارے آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
تیری وہ بیٹی جو طلاق پا کر یا بیوہ ہو کر تیری طرف لوٹ آئے اور تیرے سوا اس کے لئے کوئی کمانے والا نہ ہو۔

اب یہاں دیکھا جائے تو سب سے بڑا صدقہ بتایا گیا ہے، وہ بیٹی جو طلاق یافتہ یا بیوہ ہو کے آئے اور اس کا باپ کے علاوہ کوئی کمانے والا نہ ہو، تو جو اس کو دے گا اور اس کا خیال رکھے گا اور اس پر خرچ کرے گا وہ اس کا سب سے بڑا صدقہ ہوگا۔
اسی طرح سے بہت کثیر تعداد میں احادیثِ مبارکہ ہیں اور یہاں پہ تو صرف چند زکر کی گئی ہیں۔
تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسی قسم کے ارشادات اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ انتہا درجے کا پیار اور ہر موقع پر ان کی قدر افضائی۔
یہ وہ سب اسباب تھے جن کے باعث بچیوں یعنی بیٹیوں کے متعلق صرف اہلِ عرب کے نظریات میں انقلاب نہیں آیا بلکہ دنیا بھر میں بیٹیوں کی قدر و منذلت بھی بلند ہو گئی۔

اس آیت کا مفہوم زرا اس طرح سے سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بیٹی سے پوچھا جائے گا، زندہ درگور کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ اسے کیوں زندہ درگور کیا گیا تھا ، کس گناہ کے باعث قتل کی گئی تھی۔ تو اس کا مفہوم اس کرح بتایا گیا ہے کہ یہ یہاں نہیں فرمایا کہ اس کے سنگ دل باپ سے پوچھا جائے گا کہ تو نے اپنی بچی کو کیوں زندہ درگور کیا بلکہ فرمایا ہے کہ اس بچی سے پوچھا جائے گا کیونکہ یہ باپ جس نے اپنی بےگناہ بچی پر ایسا ظلم کیا نگاہِ خداوندی میں اس قابل ہی نہیں ہے کہ اس سے خطاب کیا جائے، اسے منہ لگایا جائے .
روح المعانی میں ہے
کہ یعنی اس انداز سے اپنے غصے اور ناراضگی کی انتہا کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس کو مخاطب بنانے کے درجے سے گرا دیا گیا ہے اور اس کو رسوا کرنے میں مبالغے سے کام لیا گیا ہے۔

اور یہ کے ظالم سے اگر اس کے ظلم کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ اس کے لئے کئی بہانے تراشنے لگتا ہے، اس لئے مناسب یہی تھا کہ مظلوم سے پوچھا جائے تاکہ وہ اس غم اور جو ظلم ہوا ہو اس کی داستان بیاں کرے۔
اس میں ایک اور حکمت بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ دنیا میں کئی مظلوم ہوتے ہیں جنہیں ظلماً قتل کر دیا جاتا ہے لیکن ان کا انتقام لینے کے لئے کئی طلواریں بےنیام ہو جاتی ہیں، یا کم از کم ان کی مظلومیت پر رنج و غم کے آنسو تو بہائے ہی جاتے ہیں۔ اور یہ ایسی مظلومہ تھیں جن پر ظلم ان کے ماں باپ نے کیا ، اس کی مظلومیت پر کسی نے صدائے اہتجاج بھی بلند نہیں کیا ، ان کی اس موت پر آنکھ نم ناک تک نہ ہوئی بلکہ الٹا اطمنیان کا سانس لیا گیا۔
اس کے قاتل پر تحسین و آفرین کے پھول اس وقت نچھاور کئے گئے۔ اسے غیرت مند اور اپنے خاندان کے ناموس کے پاسبان کا لقب دیا گیا۔
کیا مظلومیت میں اس کا کوئی ہمسر ہے؟
اگر ایسی معصوم ستم رسیدہ بچی کی دل جوئی اب اس کا پروردگار بھی نہ کرے تو اور کون کرے۔

اس سوال میں قیامت کے برپا کرنے کے حکمت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ تم خود سوچو اگر قیامت برپا نہ ہو تو کیا اس معصوم کی ، مظلوم کی داد رسی کی کوئی صورت ہو سکتی ہے؟ ایسے ظالم کو سزا دینا ممکن ہے؟
اگر اتنا بڑا ظلم، دلوں کو لرزا دینے والا ظلم محاسبے سے بچ جائے وہ ظلم کرنے والا بھی محاسبے سے بچ جائے تو اس سے بڑی اندھیر نگری اور کیا ہو گی۔
اور آللہ کے ہاں عدل ہے، انصاف ہے، اندھیر گردی اور جور و ستم نہیں ہے۔
تو ضیاء القران میں اس حوالے سے بہت تفصیل سے یہ سارا کچھ بتایا گیا ہے۔

تفسیر تفہیم القران میں بھی اس حوالے سے ان آیات کی جو تفسیر بیان کی گئی وہ یہی ہے کہ عرب میں لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا یہ بے رحمانہ طریقہ قدیم زمانے میں مختلف وجوح سے رائج ہو گیا تھا۔ ایک معاشی خستہ حالی جس کی وجہ سے یہ لوگ چاہتے تھے کہ کھانے والے کم ہوں اور اولاد کو پالنے پوسنے کا بھار ان پر نہ پڑے۔ بیٹوں کو تو اس امید پر پال لیا جاتا تھا کہ بعد میں یہ حصولِ معیشت میں ہاتھ بٹائیں گے ان کا۔ مگر بیٹیوں کو اس لیے ہلاک کر دیا جاتا تھا کہ انھیں جوان ہونے تک پالنا پڑے گا اور پھر انھیں بیاہ دینا ہو گا۔ دوسرا یہ تھا کہ وہاں عام بدامنی تھی جس کی وجہ سے بیٹوں کو اس لیے پالا جاتا تھا کہ جس کے کتنے زیادہ بیٹے ہوں گے اس کے اتنے ہی حامی و مددگار ہوں گے مگر بیٹیوں کو اس لیے ہلاک کر دیا جاتا تھا کہ قبائیلی لڑایئوں میں الٹا ان کی حفاظت کرنی پڑتی تھی اور دفاع میں وہ کسی کام بھی نہیں سکتی تھیں۔ پھر تیسرا یہ تھا کہ عام بد امنی کا ایک شاخسانہ یہ بھی تھا کہ دشمن قبیلے جب ایک دوسرے پر اچانک چھاپے مارتے تھے تو جو لڑکیاں بھی ان کے ہاتھ لگتی تھی انھیں لے جا کر وہ یا تو لونڈیاں بنا کر رکھتے تھے یا بیچ ڈالتے تھے۔ تو ان وجوہات کی بنا پر ارب میں یہ طریقہ چل پڑا تھا کہ کبھی نا کبھی تو زچگی کہ وقت ہی عورت کے آگے گڑھا کھود رکھا جاتا تھا تاکہ اگر لڑکی پیدا ہوئی تو اسی وقت اسے گڑھے میں پھینک کر مٹی ڈال دی جائے اور کبھی اگر ماں اس پر راضی نہیں ہوتی تھی تو یا خاندان والے اس کے راستے میں حائل ہوتے تو باپ بادلِ ناخواستہ اسے کچھ مدت تک پالتا اور پھر کسی وقت صحرا میں لے جا کر دفن کر دیتا۔

اس معاملے میں جو سختی برتی جاتی تھی اس کا قصہ ایک شخص نے خود نبی اکرم ﷺ سے ایک مرتبہ بیان کیا۔ سننِ دارمی کے پہلے ہی باب میں یہ حدیث منقول ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے اپنے اہل جہالیت کا ایک واقعہ بیان کیا کہ میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی جب میں اس کو پکارا کرتا تو دوڑی دوڑی میرے پاس آتی تھی۔ ایک روز میں نے اس کو بلایا اور اپنے ساتھ لے کر چل پڑا۔ راستے میں ایک کنواں تھا میں نے اس کا ہاتھ پکڑ اس کو کنویں میں دھکا دے دیا ۔ آخری آواز جو اس کی میرے کانوں میں آئی تھی ، ہائے ابا! ہائے ابا! یہ سن کر رسول اللہﷺ رو دیئے اور آپﷺ کے آنسو بہنے لگے۔ حاضرین میں سے ایک نے کہا، اے شخص تو نے رسولﷺ کو غمگین کر دیا۔ آپﷺ نے فرمایا، اسے مت روکو۔ جس چیز کا اسے سخت احساس ہے اس کے بارے میں اسے سوال کرنے دو۔ پھر آپ نے اسے فرمایا کہ اپنا قصہ پھر بیان کرو۔ اس نے دوبارہ اسے بیان کیا اور آپ سن کر اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ جاہلیت میں جو کچھ ہو گیا اللہ نے اسے معاف کر دیا اب نئے سِرے سے اپنی زندگی کا آغاز کر۔ یہاں یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ اہلِ عرب اس انتہائی غیر انسانی فعل کی قباحت کا سرے سے کوئی احساس ہی نہیں رکھتے تھے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی معاشرہ خواہ کتنا ہی بگڑ چکا ہو وہ ایسے ظالمانہ فعل کی برائی کے احساس سے بالکل خالی نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے قرآنِ پاک میں اس فعل کی قباحت پر کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کی گئی بلکہ رونگٹے کھڑے کر دینے والے الفاظ میں صرف اتنی بات کہہ کہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب زندہ گاڑھی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قصور میں ماری گئی ۔ عرب کی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت زمانہ جاہلیت میں بھی بہت سے لوگوں کو اس قبیح رسم کی قباحت کا احساس تھا۔
تفسیر ابنِ کثیر میں بیان کیا گیا ہے کہ سلمیٰ بن یزید ؓ اور ان کے بھائی حضور نبی اکرم ﷺ
کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کرتے ہیں کہ ہماری ماں امیر زادی تھی، وہ صلہ رحمی کرتی تھی ، مہمان نوازی کرتی تھی اور بہت سارے نیک کام کرتی تھی لیکن جاہلیت میں ہی مر گئی تو کیا انہیں ان کے یہ نیک کام کچھ نفع دیں گے؟ آپؐ نے فرمایا ، نہیں، انہوں نے کہا اس نے ہماری ایک بہن کو زندہ دفن کر دیا تھا ۔ کیا وہ بھی اسے کچھ نفع دے گی؟ آپؐ نے فرمایا زندہ گاڑھی ہوئی اور زندہ گاڑھنے والی جہنم میں ہیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ اسلام کو قبول کر لے۔ یہیں پر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ابنِ ابی حاتم میں ہے زندہ دفن کرنے والی اور جسے دفن کیا ہے دونوں جہنم میں ہیں ۔ ایک صحاببیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوال پر کہ جنت میں کون جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا نبی اور شہید اور بچے اور زندہ درگور کی ہو ئی۔

*: سورة التكوير 10*
*وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ ﴿۪ۙ۱۰﴾*
اور جب نامہ اعمال کھول دیئے
جائیں گے۔

ضحاک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہر انسان کو اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں یا بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم اس نامہ اعمال میں جو کچھ تو لکھوائے گا اسے لکھ کر لپیٹ دیا جائے گا۔ پھر قیامت کے دن اس کو تیرے سامنے کھولا جائے گا۔ اس لئے ہر شخص کو غور کرنا چاہئے کہ وہ اس میں کیا لکھوا رہا ہے۔

: *سورة التكوير 11*
*وَ اِذَا السَّمَآءُ کُشِطَتۡ ﴿۪ۙ۱۱﴾*
اور جب سماوی طبقات کو پھاڑ کر اپنی جگہ سے ہٹا دیا جائے گا۔

یہاں جو کُشِطَتۡ ہے اس میں "کشت" کے لغوی معنی جانور کی کھال اتارنے کے ہیں۔

بظاہر یہ حال قیامت کا نفخئہ اولئ کے وقت کا ہے۔ جو اسی دنیا میں پیش آئے گا کہ آسمان کی زینت جن چاند ستاروں اور شمس و قمر سے تھی وہ سب بے نور ہو کر دریاؤں میں ڈال دیئے جائیں گے۔ آسمان کی موجودہ جو صورت ہے وہ بدل جائے گی۔ اس کو "" کشت" کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور بعض حضرات جو مفسرین ہیں انہوں نے "،کشت " کے معنی لپیٹنے کے لکھے ہیں۔ اور آیت کے معنی مطلب یہ ہو گئے کہ آسمان جو چھت کی طرح سروں پر محیط ہے یہ لپیٹ لیا جائے گا۔ اسے اس طرح سے بھی کہ جو کچھ اب نگاہوں سے پوشیدہ ہے وہ سب عیاں ہو جائے گا۔ اب تو صرف خلا نظر آتا ہے یا پھر بادل ، گرج، چاند ،سورج اور ستارے نظر آتے ہیں۔ لیکن اس وقت خدا کی خدائی اپنی اصلی حقیقت کے ساتھ سب کے سامنے بے پردہ ہو گی۔
اسے بعض تفاسیر میں اسطرح بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ جو اب نیلا آسمان ہم آنکھ اٹھا کر جو دیکھتے ہیں۔ تو اس کے جلال اور جمال کو دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے انسان۔ لیکن اس روز جب اس کی کھال ادھیڑ لی جائے گی اتار لی جائے گی تو جلال و جمال سب فنا ہو جائے گا اور اس کے چپے چپے سے صرف وحشت برسنے لگے گی۔

تفسیر ابنِ کثیر میں بھی اس کو "جب آسمان کی کھال ادھیڑ لی جائے گی " کی تفسیر اسطرح کی گئی ہے کہ ،
مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس کو کھینچ لیا جائے گا۔
سدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ تاریک ہو جائے گا۔
ضحاک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی جلد ادھیڑ کر پھینک دی جائے گی۔

*سورة التكوير 12*
*وَ اِذَا الۡجَحِیۡمُ سُعِّرَتۡ ﴿۪ۙ۱۲﴾*
*اور جب جہنم بھڑکائی جائے گی ۔*
یعنی دوذخ کی آگ بھڑکائی جائے گی۔

سورة التكوير 13
*وَ اِذَا الۡجَنَّۃُ اُزۡلِفَتۡ ﴿۪ۙ۱۳﴾*
*اور جب جنت نزدیک کر دی جائے گی*۔
اورجنت قریب کر دی جائے گی۔

سورة التكوير 14*
*عَلِمَتۡ نَفۡسٌ مَّاۤ اَحۡضَرَتۡ ﴿ؕ۱۴﴾*
*تو اس دن ہر شخص جان لے گا جو کچھ لے کر آیا ہوگا ۔*
ہر شخص جان لے گا جو اس نے آگے کیا ہے۔

یعنی میدانِ حشر میں جب لوگوں کے مقدمات کی سماعت ہو رہی ہو گی ۔ اس وقت جہنم کی دہکتی ہوئی آگ بھی سب کو نظر آ رہی ہو گی اور جنت بھی اپنی ساری نعمتوں کے ساتھ سب کے سامنے موجود ہو گی۔
تاکہ برے بھی جان لیں کہ وہ کس چیز سے محروم ہو کر کہاں جانے والے ہیں اور نیک لوگ بھی جان لیں کہ وہ کس چیز سے بچ کر کن نعمتوں سے سرفراز ہونے والے ہیں۔

کیو نکہ اس وقت غفلت کےسارے پردے آٹھ جائیں گے۔ہر قسم کا خمار اتر جائے گا اور سب کو اچھی طرح معلوم ہو جائے گا کہ اس نے اپنی زندگی میں کیا کچھ کھویا اور کیا پایا ۔ اس کے نیک و بد اعمال سارے اس کے سامنے نظر آنے لگیں گے۔
اس حوالے سے سدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جہنم کو ایسے گرم کیا جائے گا۔
قتادہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں اس میں آگ لگادی جائے گی۔
یہ بھی فرماتے ہیں کہ جہنم کو اللہ تعالی کا غضب اور بنی آدم کی سزائیں بھڑکا ئیں گی۔
فرمایا جب جنت قریب کر دی جائے گی تو اس کے حوالے سے ضحاک، ابو مالک، قتادہ اور ربی رحمتہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اسے جنتیوں کے قریب کر دیا جائے گا۔
تو پھر اسی لیے آگے اسطرح سے فرمایا گیا کہ اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔

قرآن پاک میں ایک اور مقام پر بھی اسی طرح فرمایا گیا ہے ،
سورة قیامہ میں ہے کہ ،
آگاہ کر دیا جائے گا انسان کو اس روز جو عمل اس نے پہلے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑ کر آیا۔
حضرت زید بن اسلم ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطاب ؓ اسی سورة کی تلاوت کرتے ہوئے،

*عَلِمَتۡ نَفۡسٌ مَّاۤ اَحۡضَرَتۡ ﴿ؕ۱۴﴾*
پر پہنچے تو فرمایا یہ ساری کلام اسی لیےشروع کی گئی.