اعوذ با اللٰہ من الشیطٰن الرجیم
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم

سورہ تکویر کی آیات نمبر 15

*فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ الْجَوَارِ الْكُنَّسِ*
*پھر میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹ جانے والے تاروں کی اور قسم کھاتا ہوں سیدھے چلنے والے ،رکے رہنے والے تاروں کی۔*

ضیاء القرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہاں سے سورة کا دوسرا مضمون شروع ہوتا ہے اور وہ ہے حضور ﷺ کی رسالت کا بیان۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ پہلے خُنَّسِ الْجَوَارِ الْكُنَّسِ کا لغوی معنی ذہن نشین کر لینا چاہئیے ۔
علامہ آلوسی کہتے ہیں کہ خُنَّسِ کا واحد خانِس ہے جو خُنَّوسِ سے مشتق ہے ، اس کے معنی سمٹ جانا اور چھپ جانا ہے۔
اور جوارِ کا واحد جاریہ ہے اور یہ جرئ سے مشتق ہے اور اس کا معنی تیزی سے گزر جانا ہے۔

تو حضرت سیدنا علی کرم اللّه وجہہ سے مروی ہے، آپ نے فرمایا ، اس سے مراد ستارے ہیں۔
اسکی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کیوں کہ وہ دن کے وقت آنکھوں سے چھپ جاتے ہیں اس لئے انہیں خُنَّسِ کہا اور رات کے وقت اپنی جگہ پر نمودار ہو جاتے ہیں اس لیے انہیں كُنَّسِ کہا۔
ابن ابی حاتم نے سیدنا حضرت علی المرتضیٰ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے۔
کہ زحل، عطارد ، مشتری ، مریخ اور زوہرہ ۔۔کہ آپ نے فرمایا ،
ان سے یہ پانچ ستارے مراد ہیں انکو نجومِ مطہرہ بھی کہتے ہیں کیوں کہ انکی رفتار کا حال یکساں نہیں ہوتا ۔ بلکہ مختلف ہوا کرتا ہے۔
کبھی تو انہیں دیکھتا ہے کہ وہ ایک سمت کی طرف جا رھے ہیں ۔ پھر وہ اس کے برعکس دوسری سمت کی طرف لوٹتے ییں۔ کبھی وہ متحرک ہوتے ہیں اور کبھی ٹھرے ہوے معلوم ہوتے ہیں۔

وَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ
*اور رات کی جب وہ رخصت ہونے لگے۔*

وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ
*اور صبح کی جب وہ سانس لے۔*

عَسْعَسَ کے دو معنی کیئے گئے ہیں۔ اندھیرے کا پیٹھ پھیر جانا جیسے رات کے اختتام کے وقت ہوتا ہے اور اندھیرے کا آ جانا جیسے ابتدائی شب میں ہوتا ہے۔ یہ دونوں معنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہیں۔ یہ پہلی صورت میں معنی ہوگا رات جب پیٹھ پھیر دے اور دوسری صورت میں معنی ہو گا رات جب چھا جائے۔
نَفَّسَ جب صبح سانس لے، یعنی جب اسکی روشنی پھیلنے لگے۔ زمیشری کہتے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ جب صبح طلوع ہوتی ہے تو نسیمِ صبح چلنے لگتی ہے۔

إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ
*یہ قران ایک معزز قاصد کا قول ہے*
یعنی لایا ہوا قول ہے۔
اب یہاں پر 5 قسمیں کھانے کے بعد فرمایا ہے کہ تمہارا یہ کہنا سراسر باطل ہے , جھوٹ ہے کہ قران حضور ﷺ خود گھڑتے ہیں یا کسی انسان سے سیکھ کر لوگوں کو سناتے ہیں۔ بلکہ یہ وہ کلام ہے جو ایک محترم قاصد لے کر آیا ہے۔ اس سے مراد جبرئیل امین ہیں۔ انکی کچھ اور صفات بھی بیان کر دیں کہ وہ بڑے طاقتور ہیں، مالکِ عرش کی جناب میں انکا مرتبہ بڑا بلند ہے اور تمام ملائکہ ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ ان کی امانت میں کسی کو ادنیٰ سا بھی وہم نہیں ہے۔ جب لانے والا ان صفاتِ عالیہ سے متصف ہو۔ ان مراتبِ عرفہ پر فائز ہو تو کون یہ خیال کر سکتا ہے کہ اس نے اس کلام میں کوئی کمی بیشی کی ہو گی۔

ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍزی
*جو قوت والا ہے مالکِ عرش کے ہاں عزت والا ہے*

مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ
*سردار اور وہاں کا امین ہے*
(یعنی سب فرشتوں کا سردار اور وہاں کا امین ہے۔)

وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ
*اور تمہارا یہ ساتھی کوئی مجنوں تو نہیں*

لانے والے کی شان بیان کرنے کے بعد اب ان آیات میں ذات اطہر و اقدس کا زکر ہو رہا ہے جس کے پاس جبرئیل امین یہ کلام لے کر آیا۔ فرمایا وہ کوئی اجنبی نہیں ہے جسکی گزشتہ زندگی سے تم بے خبر ہو۔ جس کی سیرت و کردار کا تمہیں تجربہ نہ ہو۔ اعلانِ نبوت سے پہلے 40 سال کا عرصہ انہوں نے تمہارے ساتھ بسر کیا ہے۔ زندگی کی مختلف منزلیں انہوں نے تمہاری آنکھوں کے سامنے طے کی ہیں۔ تم ان کی دیانت، پاک بازی ، اولول عزمی اور دانائی کے خود گواہ ہو۔ تم حوش و حواس میں ہوتے ہوئے ان کو مجنو کہنے کی جرات نہیں کر سکتے۔

وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ
*اور بلاشبہ اس نے اس قاصد کو دیکھا ہے روشن کنارے پر۔*

یہاں یہ بتایا ہے کہ جو فرشتہ ان کے پاس اللہ کا پیغام لے کر آتا ہے وہ بھی ان کا جانا پہچانا ہے۔ انہوں نے دن کی روشنی میں آسمان کے افق پر اس کو ان آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس لیئے انہیں اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے کہ یہ اللہ تعالی کا کلام ہے جسے معزز فرشتہ جسکو وہ اچھی طرح پہچانتے ہیں لے کر ان پر نازل ہوتا ہے۔

سورة التّكوير, الآيات: ٢٤

*وَ مَا ہُوَ عَلَی الۡغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ ﴿ۚ۲۴﴾*
اور یہ نبی غیب بتانے میں ذرا بھی بخیل نہیں۔

یعنی تمہارا ان کاہن کہنا سرا سر زیادتی ہے ۔کاہن کے پاس تو غیب کا علم ہوتا ہی نہیں ۔
اور جو کسی قیاس یا کسی تخمینے کی بنا پر وہ کچھ جانتا بھی ہے تو اس کو بتانے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔
جب تک کہ اس کی منتیں سماجتیں نہ کی جائیں ۔اسکا منہ مانگا نذرانہ نہ پیش کیا جاۓ ۔
وہ منہ سے کچھ اوگھلتا ہی نہیں ہے اور یہاں تو یہ حال ہے کہ علوم ِغیب کے جو خزانےانہیں بخشے گئے ہیں ۔وہ معرفِ الہیہ جن سے ان کا سینہ معمور ہے ۔وہ تجلیاتِ ربانی جو ان کے قلب منیر پر ہر لمحہ نازل ہو رہی ہیں ۔
یہ انکو بتانے میں ذرا بھی بخل سے کام نہیں لیتے ۔بلکہ انکے علوم و معارف کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور ہر تشنہ لب کو اپنی طرف بلا رہا ہے۔
پھر تم اتنے بڑے فرق کے باوجود کیسے انہیں کھین کہ سکتے ہو ۔مولانا شبیر رحمتہ اللہ عثمانی نے اس آیت کی جو تفسیری ہاشیہ لکھا ہے ۔

وہ حضور ﷺ کے علمِ غیب پر اعتراض کرنے والوں کے لئے باعثِ ہدایت ہو سکتا ہے ۔

آپ لکھتے ہیں یعنی یہ پیغمبر ہر قسم کے غیوب کی خبر دیتا ہے۔ماضی سے متعلق ہوں یا مستقبل سے یا اللّٰه کے اسما و صفات سے یا احکام شریعہ سے یا مذاہب کی حقیقت و بتلاں سے یا جنت اور دوزخ کے احوال سے یا واقعاتِ بعد الموت سے۔
اور ان چیزوں کے بتلانے میں ذرا بخل نہیں کرتا۔
یہ تفسیرِ عثمانی میں ہے۔

سورة التّكوير, الآيات: ٢٥
*وَ مَا ہُوَ بِقَوۡلِ شَیۡطٰنٍ رَّجِیۡمٍ ﴿ۙ۲۵﴾*
اور یہ کسی شیطان مردود کا قول نہیں ۔

یعنی اور یہ قرآن کسی شیطان مردود کا قول نہیں ہے۔ یعنی کے اس کلام میں توحید کی دعوت ہے ۔ کفر و شرک سے اعتراض کا حکم ہے۔
اخلاصِ حسنہ کی تاکید ہے ۔اب شیطان کو کیا پڑی ہے کہ وہ لوگوں کو توحید کی طرف بلائے۔ انھیں غلط کاموں سے بچنے کی تاکید کرے۔
یہ کلام اپنے مقصد کے اعتبار سے تمہاری اس غلط فہمی کی پُر زور تا ئید کر رہا ہے۔

*فَاَیۡنَ تَذۡہَبُوۡنَ ﴿ؕ۲۶﴾*
پھر تم کدھر چلے جا رہے ہو۔

پھر تم منہ اٹھاۓ کدھر چلے جا رہے ہو ۔ یعنی وہ چشمہ جس سے تم سیراب ہو سکتے ہو اسے چھوڑ کر سراب کی طرف جانا کہاں کی عقل مندی ہے ۔
اس نورِ ہدایت کی تابانیوں سے منہ موڑ کر گمراہیوں کی تاریکیوں میں بھٹکتے رہنا دانش مّندوں کو زیب نہیں دیتا۔

*اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۲۷﴾*
نہیں ہے یہ نصیحت مگر سب اہلِ جہاں کے لئے۔

یعنی کے اس کو نازل کرنے والا رب العالمین ہے اور وہ جس پر یہ نازل ہوا ہے وہ رحمت اللعالمین ہے اسی طرح یہ کتاب بھی ذکر العالمین ہے ۔
زماں اور مکاں کی حد بندیئوں سے آزاد ہے اور تمام بنی نوح انسان کے لئے قیامت تک کے لئے رشد و ہدایت کا چمکتا ہوا آفتاب ہے۔
لیکن اس سے فائدہ وہی لے جس کے دل میں یہ خوائش ہو کہ وہ راہِ راست پر گامزن ہو جاۓ۔

*لِمَنۡ شَآءَ مِنۡکُمۡ اَنۡ یَّسۡتَقِیۡمَ ﴿ؕ۲۸﴾*
لیکن ہدایت وہی پاتا ہے جو تم میں سے سیدھی راہ چلنا چاہے۔

*وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۲۹﴾*
اور تم نہیں چاہ سکتے بجز اس کے کہ اللّٰه چاہے جو رب العالمین ہے۔

اور حقیقت یہ ہے ۔
تم از خود اس کی خواہش بھی نہیں کر سکتے ۔جب تک توفیقِ الٰہی دست گیری نہ کرے۔
سوچ سمجھ کر سارے چراغ بجھے رهتے ہیں اور راہِ راست پر ایک قدم بھی نہیں اٹھ سکتا۔

لیکن جب اس کی نظر لطف چارہ ساز ی کرے۔
تو سارے حجاب اٹھ جاتے ہیں ساری رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں۔
اور انسان پوری یکسوئی کے ساتھ اس منزل کی طرف رواں دواں ہو جاتا ہے۔
تفسیر ابنِ کثیر میں بھی ہے۔

کے قتادہ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں
کہ تم اللّٰه تعالیٰ کی کتاب اور اطاعت و فرماں برداری کو چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو جو اس آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ یہ تمام اہلِ جہاں کے لئے نصیحت ہی ہے ۔یہ قرآن تمام لوگوں کے لئے نصیحت ہے۔ وہ نصیحت حاصل کریں اور خصوصاً جو شخص ہدایت کی راہ پر چلنا چاہتا ہے اسے چاہیئے کہ وہ قرآنِ کریم کو لازم پکڑے ۔ یہی اس کے لئے نجات کا راستہ ہے۔
اس کے لئے کوئی اور ہدایت کا ذریعہ نہیں ہے۔
ارشاد فرمایا ہے جیسے اور تم نہیں چاہ سکتے بجز اس کے اللّٰه چاہے جو رب العالمین ہے۔
مشیت اور ارادہ تمہارے سپرد نہیں کیا گیا۔
کے جو چاہے ہدایت حاصل کر لے اور جو چاہے گمراہ ہو جاۓ ۔
بلکہ یہ سب کچھ اللّٰه کی مشیت کے تابع ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔ جب یہ آیت کریمہ،

*لِمَنۡ شَآءَ مِنۡکُمۡ اَنۡ یَّسۡتَقِیۡمَ ﴿ؕ۲۸﴾*

ابو جہل نے سنی تو کہنے لگا یہ معاملہ تو ہمارے حوالے کر دیا گیا ہے کہ ہم چاہیں تو صراطِ مستقیم اختیار کریں اور چاہیں تو نہ کریں تو اللّٰه تعالیٰ نے یہ آیت،

*وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۲۹﴾٪*

نازل فرمائی۔