سٹیپ6

احساس کربلا سے باطل کے خلاف جنگ کو ہر لمحہ اپنی زندگی میں جاری رکھنے کا سچا احساس

سوال5:ایک امتی کی حیثیت سے معرکہ کربلا کی آشنائی سے ہم پر حق کے مشن کےلئے کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

ہمیں اس حق کے مشن کو کو اپنا مشن سمجھ کر جاری رکھنا ہے ۔ حق کا پیغام پھیلانا ہے اور مشن ورکنگ کےلئے جان لگانی ہے کیوں کہ اس وقت ان عظیم ہستیوں نے جس مقصد کےلئے قربانی دی تھی ہمیں ان کی قربانی یاد رکھنی ہے اور امت کا درد کو لے کر امت کو بچانے کےلئے کوشاں رہناہے۔

پیارے امامِ عالی مقام حضرت امام حسینؓ کے حق کے مشن کو جاری رکھنے کےلئے کوشش بڑھاتے ہوئے حق پر خود بھی کھڑے ہونا ہے اور زیادہ سے زیادہ امتیوں کو حق کی راہ دکھانے کی کوشش کرنی ہے۔

حق کا عَلم ہر حال میں تھامے رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے اس کےلئے چاہے جان، مال، اولاد جو بھی لگ جائے ۔امت کا درد اپنے درد سے زیادہ اہم ہونا چاہئے۔حق بات کر نی چاہئے اور حق کا ساتھ دینا چاہئے اور جہاں ضرورت ہو حق پر ڈٹے رہنا چاہئے ۔جس طرح حق کا پیغام ہم تک پہنچااس کو امانت سمجھ کر اسی طرح آگے پہنچاناہے۔



آل نبیﷺ کی زندگیاں ہمارے لئے مثال ہیں ہمیں بھی حق کے علم کو تھامے رکھنے کی کوشش میںانہی کی پیروی کرنی چاہئے۔باطل سے لڑنا ، اپنے اندر کے باطل سے بھی اور دوسروں کو بھی اس کے جال سے نکالنا ہے۔ باطل کے وار کا ہر ایک کو بتانا ہے۔ اس سے خود بھی لڑنا ہے اس سے لڑنے والوں کو بھی کھڑا کرنا ہے۔



حضرت امام حسین کی قربانی امتی کی حیثیت سے ہم سب پر قرض ہے۔ انہوں نے سب کچھ لٹا کے حق بچایا۔اب ہم ایک ایک امتی کو بچا کر یہ قرض ادا کرنا ہے۔جو عظیم ترین قربانی آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے جگر گوشے امام عالی مقامؑ نے کربلا میں دی اس قربانی کا احساس دل سے کرتے ہوئے اس درد کو زندہ رکھنا، اس احساس کو زندہ رکھنا کہ وہ سب کیوں ہوا ، کس درد میں ہوا، کس مقصد کے تحت ہوا ۔ اور ان کی قربانیوں کا جو احساس ہمیں ملا ہے یہ احساس آگے امتیوں کو بھی دینا چاہئے ۔

معرکہ کربلا میں قربانی دی گئی ، تو اب ہمیں بھی ان کےلئے قربانی دینی چاہئے۔ امت بچ جائے امت کو ہدایت ملے، اب اسی مقصد کو ہر دم پورا کرنے میں اپنی جان لگا کراس درد کا دیا ایک دل سے دوسرے دل تک روشن کرتے جاناہے ۔اس وقت جو درد کربلا والوں نے سہا اب اس درد کا انتقام لینے کےلئے ہر لمحہ باطل کے خلاف جنگ میں نہ صرف خود لگے رہنا بلکہ امتیوں کو بھی اس میں لگاتے جانا تاکہ انتقام پورا ہوسکے اور ہماری یہ کوششیں درد کا مرہم بن سکیں ۔

دل میں امت کے لئے پیار بسا کر ہم بھی ایک امتی کی حیثیت سے سب کےلئے راہِ نجات کی دعا کریں ۔ اس کام کو اپنا فرض عین سمجھ لیں اور زندگی کا لمحہ لمحہ اسی مشن ورکنگ میں لگا دیں ۔جس طرح آل نبی نے ایمان کی مضبوطی سے کربلا میں اسلام کو بچایا، اب اس ایمان کی شمع کو اپنے اور امتیوں کے دلوں میں روشن کرنے کی کوشش میں رہیں ۔
اس یقین کے ساتھ کہ72 شہدائے کربلا کی قربانیوں سے روشن دلوں
میں یہ ایمان کے چراغ اب کبھی بھی نہ بجھیں گے مزید سے مزید روشن ضرور ہوں گے۔انشااللہ۔