باطل ...نفس، دنیا اور شیطان کا نام ہے

حدیث مبارکہ میں ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا اور میں نے چاہا کہ پہچانا جاﺅں ۔ اس لیے جو بھی اللہ کی آشنائی اور محبت میں قدم بڑھاتا ہے وہ حق کا مسافر ہو تاہے۔روزِ اول ہی جب اللہ نے سارے فرشتوں کو آدم ؑ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو ابلیس نے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے وہ لعنت زدہ کر کے
دھتکار دیا گیا۔ اور اس نے اللہ سے قیامت تک کے لیے مہلت مانگی کہ میں تیرے بندوں کو تیرے راستے سے بھٹکا تا رہوں گا۔

.قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِيْٓ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَقَالَ فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ
اِلٰى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ

کہنے لگا میرے رب! مجھے اس دن تک کی ڈھیل دے کہ لوگ دوبارہ اٹھ کھڑے کیئے جائیں۔فرمایا کہ اچھا تو ان میں سے ہے
جنہیں مہلت ملی ہے۔روز مقرر کے وقت تک۔
(الحجر:36-38)


سورة الشمس میں اللہ فرماتا ہے کہ میں نے تمہارے اندر نیکی اور بدی الہام کر دیئے اور ہر انسان کو اختیار دیا گیا کہ وہ نیکی کی راہ اختیار کرے یا بدی کی۔ اس لیے جب ہم اس دنیا میں آ تے ہیں تو ہمارے اندر اللہ کی رضا اور خوشی یعنی نیکی و بھلائی اور پرہیزگاری کا شعور ہو تاہے۔ اور اسے اختیار کر نے والوں کو ہر لمحہ شر کا مختلف شکلوں اور صورتوں میں سامنا ہو تا ہے۔

اس بدی اور باطل سے خود کو بچاتے اور اس سے لڑتے ہوئے اللہ کے ہر حکم پر صبرورضا کیساتھ سر تسلیم خم کر تے ہوئے ہر حال میں شکر کرنے والے ہی سچے مسلمان ہو تے ہیں۔ اس کی اعلیٰ ترین مثال امام عالی مقا مؑ حضرت امام حسین ؑ نے معرکہ کر بلا میں ہر طرح کی انتہائی مشکل آزمائشوں میں بھی باطل کے خلاف حق پر ڈٹے رہ کر نہ صرف اپنے بلکہ اپنے گھر والوں اور ساتھیوں کے خون سے کر بلا کی ریت پر رقم کر دی تاکہ آ نے والوں کے لیے ایک ایسی مثال قائم ہو جائے کہ وہ حق جس کی پہچان کے لیے ہمیں اس دنیا میں بھیجا گیا، ہر طرح کی آزمائشوں سے نہ گھبراتے ہوئے اس حق کی آشنائی نہ صرف خود پانی ہے بلکہ اس حق کو پہچان کر خود بھی اس پر ڈٹ کر کھڑے ہو جانا ہے اور دوسروں تک بھی اسے پہنچانے کا فریضہ سر انجام دینا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ باطل اپنی تمام پاور اور ہتھیاروں سے لیس ہو کر اس کے سامنے آ جا تا ہے جو یہ کرنے کا ارادہ بھی کرے۔ اور جو آ گے قدم بڑھائے تو باطل اس کا پکا دشمن بن کر اس کا حق کا سفر کسی بھی طرح سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کر تا ہے۔

باطل بذات خود مجسم نہیں ہے بلکہ یہ نفس، دنیا اور شیطان کا نام ہے ۔ اور اس کی کوئی مخصوص شکل ،رنگ یا حلیہ نہیں ہو تا۔ یہ کسی بھی ماحول میں کسی بھی روپ میں کبھی ظاہر اََاور کبھی چھپ کر حق کی راہ کے مسافر کے مقابل آتا رہتا ہے۔ اور یہی وقت حق کے راہی کی آزمائش کا ہو تا ہے۔ کہ اگر وہ ہر لمحہ اس د شمن سے الرٹ رہاہے تو کیسے اس وقت باطل کے کسی بھی وار کو سمجھتے ہوئے اللہ پر یقین اور ایمان کی طاقت کے ساتھ اس وار کا مقابلہ کر تے ہوئے نہ صرف باطل سے بچ نکلتا ہے بلکہ باطل کو شکست دیتے ہوئے حق پر ڈٹ کر کھڑا ہو جاتا ہے ۔

ہر بار جب ہم باطل کے ظاہر یا چھپے ہوئے وار کو پکڑ کر اس کا منہ توڑ جواب دیتے ہیں تو ہمارے اندر اللہ پر یقین اورایمان کی طاقت کے ساتھ حوصلہ اور بڑ ھ جاتا ہے ۔اور ہم آ گے سے آگے نہ صرف خود ایسے ہی باطل سے لڑتے حق کی طرف بڑھتے ہیں۔ بلکہ دوسروں کو بھی باطل کے مقابل کھڑے رہنے اور لڑنے کے گر سکھاتے ہیں اور اللہ پر ایمان مضبوط کر کے نجات کی راہ دِکھا سکتے ہیں۔باطل لمحہ لمحہ حق کے راہی کی تاک میں ہو تا ہے اور خود کو بہت سے پردوں ،پرتوں ، نقابوں اور ریشمی جالوں میں چھپا کر رکھتا ہے۔

یہ باطل ہی ہے جو
کبھی دنیا کی محبت کی صورت میں
کبھی ذات ، انا اور تکبر کے پردے میں
کبھی ظاہری شر بن کر
کبھی شر کو خیر کے نقاب میں چھپا کر
اور کبھی نفسانی خواہشات کی تسکین کے سامان میں موجود ہو تا ہے

یہ باطل ہی تو ہے جو راہِ حق کے ہر مسافرکے دل میں موجود حق کی آشنائی کے باوجود اسے اپنے مقصدِ حق
سے ایسے غافل کر کے کہیں نہ کہیںپھنسا دیتا ہے کہ سمجھ ہی نہیں لگنے دیتا۔کہیں مظلومیت میں دوست بن کر گھیر لیتا ہے .کہیں وہ حق کے راہی کے دل میں تسکین کے احساس بیدار کر تے...کہیں تسلی اور اطمینان دیتے ہوئے نظر آ تا ہے۔ اور کہیں حق کی راہ کے مسافر کی نظر اللہ کے کرم اور فضل سے ہٹا کر اپنے زورِ بازو پر یقین بیدار کرکے .... میں کج وی نئی کے احساس کی دھجیاں اڑاتے ہوئے سامنے آتا ہے۔

یہ باطل ہی ہے جو ہماری نظر اپنے عیبوں سے ہٹا کر دوسروں پر کرنے کے پر دے میں چھپ کے اپنا بن کر اپنے بارے میں خوش گمانی دیتا ہے۔ اور دوسروں کے بارے میں بد گمانی کا کام پر دے میں چھپ کر کر تا ہے۔اور اگر کوئی خوش قسمتی سے حق کے علم کی سربلندی کے حسینی مشن کا ورکر بن کر کام کر نے لگے تو اسے امت کی بھلائی کی خاطر حق کے علم کی سر بلندی کے لیے کام کرنے سے ہر صورت غافل کرنے کے ہر طریقے کو استعمال کر تا نظر آ تا ہے۔باطل اس ورکر کے حسینی سپاہیانہ جذبے کو کم کر کے اس کی شدت کو
کسی اور باطل راہ پر ضائع کرانے کے نقاب میں بھی چھپا ہو تا ہے۔
اور یاد رکھنا
یہی باطل ہے جو امتیوں کے درمیان اختلافات ، رنجش ، غصہ ، کشیدگی، نفرت، بغض، کینہ، بد گمانی، دشمنی ، زیادتی، نا انصافی اور فرقہ واریت کا وار چلاتا ہے ۔ اور باہمی محبت میں آہستہ آ ہستہ کمی کر کے مکمل طور پر اسے ختم کر دیتا ہے۔ وہ امت جسے بچانے کے لیے، جس کی بھلائی کے لیے اور جسے نجات کی راہ پر چلانے کی خاطرپیارے آقائے دوجہاںﷺ نہ صرف خو د تکالیف اور مسائل بر داشت کرتے اور راتوں کو رو رو کر دعائیں مانگتے رہے بلکہ اپنی آل ؑ اپنے جگر گوشوں ، اپنے گلشن کے پھولوں کی جان کی قربانی پیش کر دی۔
اگر ہم اللہ سے پیار کر تے ہیں اور خود کو پیارے آقائے دوجہاںﷺ اور انﷺ کی آل پاکؑ کا غلام کہتے ہیں،روز حشر ان ﷺکے جھنڈے تلے کھڑے ہونا، ان ﷺکی شفاعت سے بہرہ مند ہونااور حوضِ کوثر کا جام پینا چاہتے ہیںتو آج باطل کو پہچاننا اور اس کا مقابلہ کر کے اسے منہ توڑ جواب دینا ہو گا۔
یہاں باطل کے چہرہ پر پڑے ریشمی اور دلفریب نقاب کو ہٹانے اور اس کے وہ چھپے ہوئے روپ دکھانے کی
کوشش کی گئی ہے جو وہ ہر پل دھارتاہے۔اور حق کی راہ پر قدم بڑھانے والے کسی بھی حق کے راہی کی ا للہ کی قربت کی راہ کھوٹی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے مکروہ چہرے سے نقاب اٹھایا گیا ہے تا کہ اس کا حقیقی چہرہ ایک ایک امتی اور حق کے راہی کے سامنے آجائے اور یہ جب جہاں ا ور جس بھی روپ میں چھپ کر بزدلی سے وارکرنے کی کوشش کرے تو اس کا ہر وار خالی جائے۔یہ کسی کو حق کی راہ سے بھٹکانے یا اس کے قدم پیچھے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکے اور نہ ہی سفر میں آگے جانے سے روک سکے۔